Maktaba Wahhabi

66 - 503
یزید کے لشکر کے ساتھ شامل کر دیا اور ان پر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کو امیر مقرر فرمایا۔[1] شامی محاذ پر لڑی گئی جنگوں میں ابوسفیان بن حرب بھی شامل تھے اگرچہ وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔[2] شام کے جہاد میں خالد بن سعید، ابان بن سعید اور عمرو بن سعید رضی اللہ عنہم بھی شامل رہے اور اعدائے اسلام سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے کہہ دیا: شام کا جو علاقہ بھی فتح ہوا وہاں سعید بن العاص کی اولاد سے کوئی نہ کوئی آدمی ضرور شہید ہوا۔[3] جنگ یرموک سے پہلے قائدین لشکر جولان میں جنگ کرنے کے بارے میں ایک مجلس مشاورت میں شریک تھے کہ اس دوران ابوسفیان بن حرب ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں گا کہ قریش کے چند کم سن لوگ میرے گھر میں بیٹھ کر جنگ کے بارے میں گفتگو کریں اور دشمن کے خلاف جنگی پلان تیار کرنے کے لیے باہم مشاورت کریں گے مگر مجھے اس مشاورت میں شریک ہونے کی دعوت بھی نہیں دیں گے۔ یہ سن کر انہوں نے ان کے لیے جگہ خالی کی اور پھر آپ نے ان کے ساتھ مل کر جنگی منصوبہ تیار کیا۔[4] جب جنگ یرموک کی تیاریاں آخری مرحلہ میں داخل ہو گئیں تو فریقین کے قائدین اپنی اپنی سپاہ کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کے سامنے آئے۔ اگر ایک طرف رومیوں کے علماء اور پادری انہیں عیسائیت کا واسطہ دے کر میدان جنگ میں داد شجاعت دینے پر اکسا رہے تھے اور انہیں ایک ایسی جنگ میں شرکت کرنے کے لیے ابھار رہے تھے جس کی بعد ازاں مثال پیش کرنا بھی مشکل ہے۔[5] تو مسلمان قائدین اپنی سپاہ کو بڑے دلنشین اور جذبات بھڑکانے والے خطبات سے آمادۂ جنگ کر رہے تھے،[6] بلکہ اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنے بزرگوں میں سے ایک سرکردہ شخص کو متعین کر دیا تھا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی شخصیت کا نام تھا: ابو سفیان بن حرب۔[7] یقینا انہیں یہ منصب تفویض کیا جانا دین اسلام کے لیے ان کے صدق و اخلاص کی بہت بڑی دلیل ہے، اس لیے کہ اگر اس وقت قائدین لشکر کے علم میں ان کے اخلاص و وفا کے علاوہ کوئی اور بات ہوتی تو انہیں یہ ذمہ داری تفویض نہ کی جاتی کہ انہوں نے لشکر اسلام کی اسلامی حمیت کو بھڑکانا اور ان کے جذبۂ شجاعت و بسالت کو برانگیختہ کرنا ہے۔ نیز اگر سپاہ اسلام میں ان کے صادق الایمان ہونے کے علاوہ کوئی اور بات ہوتی تو ان پر ان کے اس عمل کے اس قدر اچھے اثرات مرتب نہ ہوتے۔ ذمہ داران لشکر اسلام کی طرف سے ابوسفیان کا انتخاب عملاً قابل تعریف اور لائق ستائش رہا جو اس لشکر کی تشکیل و ترتیب کے مزاج سے ہم آہنگ تھا اور جو اُن اہل مکہ اور دیگر عرب قبائل پر مشتمل تھا جو تاخیر سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے اور جنہیں عرصہ دراز سے اپنے زعیم و قائد ابوسفیان پر مکمل
Flag Counter