Maktaba Wahhabi

79 - 503
عدل قائم کیا جائے، اچھائی کی اشاعت کی جائے برائی سے روکا جائے اور دین الٰہی کی سربلندی کے لیے انتھک کوشش کی جائے۔ ان کا یقین تھا کہ ان کی اصل ذمہ داری اس مہم کو سر کرنا ہے اور یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ ہی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے، اگر وہ اس ذمہ داری کی ادائیگی سے قاصر رہتے ہیں اور اپنے فرائض کی تکمیل سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں تو پھر اللہ دنیا میں ان کی مدد کرنے سے ہاتھ روک لے گا اور آخرت میں انہیں اپنی خوشنودی سے محروم کر دے گا تو یہ ایک کھلا خسارہ ہو گا۔ اسی بنا پر وہ امیر کے ساتھ کشاں کشاں چلے آئے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے کشتیوں پر سوار ہو گئے۔ شاید ام حرام رضی اللہ عنہا کی حدیث ہی نے ان کے دلوں میں ان جذبات کو اجاگر کیا ہو اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے انہیں اس سمندری سفر کے لیے آمادہ کیا ہو۔ ۲۸ھ بمطابق ۶۴۹ء میں موسم سرما کے اختتام پر مسلمان شام سے روانہ ہوئے[1] اور عکا کی بندرگاہ سے کشتیوں پر سوار ہوئے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا اپنی سواری پر سوار ہوئیں تو سواری کا جانور بدک گیا اور اس نے انہیں زمین پر گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور اس طرح وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔[2] مسلمانوں نے ان قربانیوں کی یاد کے طور پر جو انہوں نے اپنے دین کی اشاعت کے لیے پیش کی تھیں ام حرام رضی اللہ عنہا کو جزیرہ کی زمین میں ہی سپرد خاک کر دیا۔ اس علاقہ میں ان کی قبر کو ’’نیک بی بی کی قبر‘‘ سے جانا جاتا ہے۔[3] اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء کے ساتھ اکٹھے ہوئے جن میں ابوایوب انصاری، ابو الدرداء، ابوذر غفاری، عبادہ بن صامت، واثلہ بن اسقع، عبداللہ بن بشر مازنی، شداد بن اوس بن ثابت، مقداد بن اسود، کعب الحبر بن ماکع اور جبیر بن نفیر حضرمی بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے باہم مشورہ کر کے اہل قبرص کے نام پیغام بھیجا کہ ہم تمہارے جزیرہ پر قبضہ کرنے کی غرض سے نہیں آئے۔[4] ہم تمہیں اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لیے آئے ہیں نیر ہمارے پیش نظر شام میں دولت اسلامیہ کی حدود کو پر امن رکھنا ہے اور یہ اس لیے کہ بینرنظی جب مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں تو قبرص کو آرام گاہ کے طور پر استعمال کیا کرتے اور جب ان کا زاد راہ کم پڑ جاتا تو یہاں سے سامان رسد حاصل کیا کرتے تھے۔ اگر مسلمان اس جزیرہ کو اپنے زیر نگین کر کے مطمئن نہ ہوئے اور وہ ان کے ارادے کے تابع نہ ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کا وجود کانٹا بن کر ان کی پیٹھوں میں چبھتا رہے گا اور تیر بن کر مسلمانوں کے سینوں کو چھلنی کرتا رہے گا مگر اس پیغام کے جواب میں اہل جزیرہ نے نہ تو سپاہ اسلام کے سامنے ہتھیار ڈالے اور نہ ان کے لیے اپنے شہروں کے دروازے کھولے اور نہ ان کا سامنا کرنے کے لیے میدان میں ہی اترے بلکہ دار الحکومت میں قلعہ بند ہو
Flag Counter