Maktaba Wahhabi

112 - 503
بات دیکھتے تو وہ مجھے اپنے ہاتھ سے خط لکھتے اور میں اپنے عہدے سے الگ ہو جاتا اور اگر اللہ کا یہی فیصلہ ہے تو مجھے امید ہے کہ اس سے بہتر کوئی صورت نکل آئے گی۔ مگر یاد رہے کہ تمہاری یہ باتیں شیطان کی تمنائیں ہیں اور وہی تمہیں ان باتوں کا حکم دیتا ہے۔ مجھے میری بقاء کی قسم! اگر تمہاری تمناؤں اور آراء کے مطابق فیصلے ہوا کرتے تو مسلمانوں کے معاملات کبھی درست نہ ہوتے اور یہ نظام ایک دن بھی نہ چل سکتا، مگر یہ ذات باری تعالیٰ ہی ہے جو ان معاملات کو سدھار رہی ہے اور وہی انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم نیکی کی طرف لوٹو اور خیر خواہی کی باتیں کرو۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی یہ بات پھر دہرائی کہ تم اس منصب کے اہل نہیں ہو۔ انہوں نے فرمایا: سنو! اللہ کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم اسی طرح شیطان کی اتباع کرتے رہے اور رب تعالیٰ کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو اس کا قہر و غضب تمہیں اس دنیا میں بھی ذلیل و خوار کرے گا اور آخرت میں بھی۔ اس پر یہ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ پر جھپٹے اور انہیں سر اور داڑھی سے پکڑ لیا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: رک جاؤ یہ کوئی کوفہ نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اہل شام کو یہ معلوم ہو جائے کہ تم نے ان کے امام کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے تو میں انہیں تمہیں قتل کرنے سے نہیں روک سکوں گا، پھر آپ ان کے پاس سے اٹھ گئے اور فرمایا: میں آئندہ کے لیے تمہیں یہاں آنے کے لیے نہیں کہوں گا۔[1] اہل کوفہ کو مطمئن کرنے کے لیے امیر شام حضرت معاویہ کی یہ آخری کوشش تھی جس میں انہوں نے حلم و حوصلہ سے کام لیتے ہوئے اپنی طرف سے پوری پوری کوشش کی کہ انہیں کسی طرح فتنہ و فساد اور شرپسندی سے باز رکھیں۔ اسی دوران آپ نے انہیں اللہ سے ڈرنے، اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے، جماعت سے وابستہ رہنے اور فرقہ بازی سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ مگر انہوں نے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہاری اطاعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مگر انہوں نے وسیع ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ میں تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کی تلقین کر رہا تھا اور اگر تمہارے خیال میں میں نے ایسا نہیں کہا تو میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں اور اب تمہیں اس کی اطاعت گزاری اور جماعت سے وابستگی کی دعوت دیتا ہوں۔ مگر انہوں نے ان کی پند و نصیحت سے تو کیا متاثر ہونا تھا الٹا ان سے یہ کہہ دیا کہ ہم تمہیں اپنے عہدے سے الگ ہونے کا حکم دیتے ہیں اس لیے کہ تم اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہو مسلمانوں میں تم سے زیادہ بہتر اور باصلاحیت لوگ بھی موجود ہیں۔ مگر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی اس اشتعال انگیزی کا جواب بھی بڑے تحمل اور بردباری سے دیا۔ جو کہ چھ اہم اور اساسی نکات پر مشتمل تھا: ۱۔ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے بڑی خدمات سر انجام دی ہیں اور یہ کہ وہ اپنے بھائی یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی موت سے لے کر آج تک شامی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ ۲۔ اگرچہ مسلمانوں میں ان سے بہتر لوگ موجود ہیں اور جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے بڑی بڑی
Flag Counter