Maktaba Wahhabi

114 - 503
پیش کرتے ہیں اور اس طرح وہ لوگوں میں غلط فہمی پیدا کر رہے ہیں اور اس لیے کہ سب لوگ ان کے اصل ارادوں سے واقف نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا مقصد لوگوں میں تفرقہ اور انتشار پھیلانا ہے اور یہ لوگ اپنے عمل اور کردار سے فتنہ کو قریب لا رہے ہیں۔ اسلام انہیں گراں گزرتا ہے اور وہ اسلام سے بیزار ہیں۔ شیطان کی غلامی ان کے دلوں میں گھر کر چکی ہے اور انہوں نے کوفہ کا ماحول خراب کر دیا ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ اگر یہ لوگ مزید کچھ عرصہ اہل شام کے ہاں مقیم رہے تو یہ انہیں بھی اپنے فسق و فجور اور سحربیانی سے خراب کر دیں گئے، لہٰذا آپ انہیں اسی شہر میں واپس بلا لیں جہاں سے ان کی منافقت پھوٹی تھی۔‘‘[1] خط پڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں سعید بن العاص کو تحریری حکم بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو واپس بلا لیں۔ انہوں نے ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان لوگوں کو واپس کوفہ بلا لیا مگر کوفہ آنے کے بعد ان کی زبانیں پھر کھل گئیں۔ اس پر سعید نے حضرت عثمان کو خط لکھا کہ وہ ان سے بہت تنگ ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ ان لوگوں کو عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس حمص بھیج دیں۔ عبدالرحمن اس وقت حمص کے امیر تھے۔[2] جب یہ لوگ ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے انہیں اپنے پاس بلا کر بڑے سخت لہجے میں بات کی۔ اس دوران انہوں نے کہا: تم لوگ شیطان کے آلہ کار ہو، لہٰذا میں تمہیں مرحبا نہیں کہہ سکتا۔ شیطان تو ناکام و نامراد ہوا مگر تم ابھی تک باطل کے لیے کوشاں ہو۔ عبدالرحمن کے پاس کچھ نہ رہے اگر وہ تمہیں سیدھا نہ کرے اور تمہیں ذلیل نہ کرے۔ میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو، عربی ہو یا عجمی؟ مجھ سے وہ باتیں نہ کرنا جو تم سعید اور معاویہ سے کرتے رہے۔ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہوں۔ میں مرتدین کی گردنے توڑنے والے کا بیٹا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں تمہاری گردنیں جھکا کر چھوڑوں گا۔ عبدالرحمن نے ایک ماہ تک انہیں اپنے پاس رکھا اور ان کے ساتھ بڑا سخت برتاؤ کیا اور ان کے ساتھ سعید رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرح نرمی نہ برتی۔ انہیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے اور انہیں ذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ جب ان کا زعیم صعصعہ بن صوحان عبدالرحمن کے سامنے آتا تو وہ ان سے فرماتے: ارے گناہ کے بیٹے! کیا تو جانتا ہے کہ جسے خیر صحیح نہ کرے اسے شر صحیح کرتا ہے اور جسے نرمی صحیح نہ کرے اسے سختی صحیح کیا کرتی ہے؟ آپ ان سے یہ بھی کہا کرتے: تم مجھے اس طرح جواب کیوں نہیں دیتے جس طرح کوفہ میں سعید کو اور شام میں معاویہ کو دیا کرتے تھے؟ تم مجھ سے اس طرح مخاطب کیوں نہیں ہوتے جس طرح ان دونوں سے مخاطب ہوا کرتے تھے؟ ان کے ساتھ عبدالرحمن کا یہ رویہ ان کے لیے مفید ثابت ہوا۔ ان کی شدت اور سخت دلی رنگ لائی، چنانچہ انہوں نے ان کے سامنے توبہ اور ندامت کا اظہار کیا۔ وہ کہنے لگے: ہم اللہ کے حضور توبہ کرتے اور اس سے طلب بخشش کرتے ہیں۔ ہمیں معاف کر دیں وہ تمہیں معاف کر دے گا۔ ہمارے بارے میں درگزر سے کام لیں اللہ تم سے درگزر فرمائے گا۔ یہ لوگ جزیرہ میں عبدالرحمن کے پاس رہے اس دوران انہوں نے اشتر کو
Flag Counter