Maktaba Wahhabi

115 - 503
حضرت عثمان کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں بتائے کہ ہم نے توبہ کر لی ہے اور فتنہ سازی کی اپنی سرگرمیوں سے باز آگئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اشتر سے کہا: میں نے بھی تمہیں معاف کیا۔ تم اور تمہارے ساتھی جہاں چاہو قیام کر سکتے ہو۔ اشتر نے کہا: ہم کچھ دیر کے لیے عبدالرحمن کے پاس رہنا چاہتے ہیں۔ وہ ان کے پاس اپنے قیام کے دوران انہیں توبہ، استقامت اور درستگی کا تاثر دیتے رہے۔[1]ادھر فتنہ پردازوں نے کوفہ میں بھی کچھ عرصہ تک خاموشی اختیار کیے رکھی ان کے نزدیک مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔[2] البتہ فتنہ کے دیگر کرداروں نے بصرہ، مصر اور دیگر شہروں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ عثمانی خلافت کے گیارہویں سال ابن سبا نے اپنے ناپاک منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے مقرر کردہ امراء کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے اپنی جماعت کے ساتھ مشاورت کی۔ اس کے لیے اس نے اپنی سازشوں کے گڑھ مصر میں بصرہ، کوفہ اور مدینہ میں موجود دیگر سازشی شیطانوں سے رابطے کیے اور ان کے ساتھ خلیفۃ المسلمین کے خلاف بغاوت کی تفصیلات پر اتفاق کیا۔ یہ لوگ باہم خط و کتابت کے ذریعے رابطے کرتے تھے۔ کوفہ میں سبائی گروہ سے تعلق رکھنے والے کل دس بارہ لوگ تھے جن میں سے بعض کو پہلے شام اور بعد میں عبدالرحمن کے پاس جزیرہ میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ ان کے یہاں سے نکالے جانے کے بعد کوفہ میں فتنہ پرور سبائی گروہ کا قائد یزید بن قیس تھا۔[3] ۳۴ھ میں کوفہ سرکردہ اور معززین شہر سے خالی ہو گیا اس لیے کہ یہ سب لوگ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے روانہ ہو گئے تھے اور شہر میں نچلے طبقہ کے چند لوگ باقی رہ گئے تھے جن پر منحرف سبائیوں نے اثر انداز ہو کر ان کے ذہنوں کو اپنے خبیث اور گندے افکار و نظریات سے بھر دیا اور انہیں کوفہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ والی سعید بن العاص کے خلاف بھڑکا دیا۔[4] کوفہ کے جنگی حاکم قعقاع بن عمرو نے یزید بن قیس کی قیادت میں سبائیوں کی پہلی تحریک کو بڑی سختی کے ساتھ کچل دیا۔ مگر جب یزید کو اس کی سختی، بصیرت اور بیدار مغزی کا علم ہوا تو اس نے ان پر اپنے اس منصوبے کا افشاء تو نہ کیا کہ ہم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کر کے انہیں معزول کرنا چاہتے ہیں بلکہ انہیں یہ بتایا کہ ہمارا مقصد صرف کوفہ کے والی سعید بن زید کو معزول کر کے اس کی جگہ کسی دوسرے والی کا تقرر ہے۔ اس پر ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور ان کے لوگوں کو رہا کر دیا گیا۔ یزید اس مطالبے کو تسلیم کروانے کے لیے مسجد کوفہ میں جا کر بیٹھ گیا۔ جب قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے کہا کہ اس کام کی تکمیل مسجد میں بیٹھ کر نہیں ہو سکتی اور یہاں تمہارے پاس آکر بھی کوئی نہ بیٹھے۔ تم جو کچھ چاہتے ہو اس کا مطالبہ خلیفہ رضی اللہ عنہ سے کرو باذن اللہ تمہاری یہ خواہش
Flag Counter