Maktaba Wahhabi

116 - 503
ضرور پوری ہو گی۔[1] فتنہ کی آگ بھڑکانے کے لیے یزید(بن قیس) نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ابن سبا کے پیروکاروں کے مکر و فریب اور سازشوں کے نتیجہ میں شہر کے نچلے طبقہ کے گھٹیا لوگوں نے سعید بن العاص کو شہر کوفہ میں داخل ہونے سے روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ یاد رہے کہ اس وقت سعید مدینہ منورہ میں تھے۔[2] جب سبائی مسجد سے باہر نکل گئے تو چند شرفاء اور عمائدین وہاں باقی رہ گئے۔ اس وقت عمرو بن حریث نائب حاکم تھا وہ منبر پر چڑھا اور لوگوں کو فرقہ بازی، اختلاف و انتشار اور فتنہ و خروج سے منع کیا اور انہیں باغیوں اور سرکشی اختیار کرنے والوں کی باتوں میں نہ آنے کی تلقین کی۔[3] اس پر قعقاع بن عمرو تمیمی نے کہا: اگر تم سمندر کے سیلاب کو لوٹا سکتے ہو تو دریائے فرات کی موجوں کو روک دو، مگر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اب اگر کوئی چیز عوام کو مطمئن کر سکتی ہے تو وہ صرف بے نیام شمشیر ہے اور وہ جلد ہی سونت لی جائے گی۔ پھر عوام ایک زبردست ہنگامہ برپا کریں گے اور اپنے مقاصد پورے کیے بغیر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اس لیے تم صبر کرو۔ عمرو نے کہا: ہاں میں صبر کروں گا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر چلے گئے۔[4] فتنہ پرستوں نے والی کوفہ سعید بن العاص کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا اور وہ واپس مدینہ چلے گئے، ان کی رائے تھی کہ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ان لوگوں کا سامنا نہ کیا جائے اور فتنہ کی آگ کو مزید نہ بھڑکایا جائے بلکہ اسے بجھانے کی کوشش کی جائے یا کم از کم اس کے بھڑکنے کو موخر کیا جائے۔ جب وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پیش کردہ صورت حال سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیا انہوں نے اطاعت سے دست کشی کی ہے؟ سعید نے جواب دیا: وہ حاکم کی تبدیلی چاہیے ہیں۔ آپ نے دریافت کیا: وہ اس کی جگہ کس کا تقرر چاہتے ہیں؟ سعید بن العاص نے بتایا کہ وہ ابو موسی الاشعری کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے ان پر ابوموسیٰ کو حاکم مقرر کر دیا ہے، لیکن اللہ کی قسم! اب ہم کسی کا عذر نہیں سنیں گے اور نہ ان میں سے کسی کو حجت بازی کا موقع ہی دیا جائے گا۔ ادھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو تحریری طور سے اس امر کی اطلاع کر دی کہ انہیں کوفہ کا والی مقرر کر دیا گیا ہے۔[5]ابو موسیٰ نے کوفہ آنے کے بعد لوگوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کی اور نافرمانی سے منع کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! تم مخالفت کے لیے نہ نکلو اور آئندہ کے لیے ایسی نافرمانی بھی نہ کرنا۔ اپنی جماعت کو لازم پکڑو اور اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔ جلد بازی کے کاموں سے پرہیز کرو اور صبر و حوصلہ سے کام لیا کرو اور اس بات کو بخوبی سمجھ لو کہ امیر تمہارے اوپر حاکم ہے۔ لوگوں نے کہا: آپ ہمیں نماز پڑھائیں۔ ابوموسیٰ نے کہا: میں تمہیں اس وقت تک نماز نہیں پڑھاؤں گا جب تک تم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے احکامات کو سننے اور ان کی تعمیل کرنے کا اقرار نہیں کرو گے، چنانچہ ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
Flag Counter