Maktaba Wahhabi

119 - 503
اور اس کے لیے عشرہ مبشرہ کے فضائل سے استشہاد کرتے ہیں۔[1]گویا کہ آپ یہ فرمانا چاہتے تھے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان کردہ ان فضائل و مناقب اور اسلام کے لیے میری ان گراں قدر خدمات کے باوجود میرے لیے یہ ممکن ہے کہ میں دنیا کا طمع کرتے ہوئے اسے آخرت پر ترجیح دوں گا اور کیا یہ بات معقول ہے کہ ایسا شخص امانت میں خیانت کرے گا، امت کے اموال کو من مانے انداز میں لٹائے گا اور اس کے خون کا مذاق اڑائے گا؟ جبکہ وہ اللہ کے ہاں اس کے انجام سے بھی بخوبی آگاہ ہو؟ اور وہ وہی ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست تربیت حاصل کی، آپ نے اس کی پاکیزگی کی گواہی دی؟ جس شخص کا جوانی میں یہ کردار رہا ہو بھلا وہ اسی سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ساتھ اس قسم کا معاملہ کر سکتا ہے؟ مدینہ منورہ پر سرکشوں کی گرفت اور مضبوط ہو گئی یہاں تک کہ وہ لوگوں کو نمازیں بھی خود ہی پڑھانے لگ گئے۔[2]جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ ادراک ہوا کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح اس کا تاثر دیا گیا اور وہ صورت حال کے برے انجام سے ڈرے اور انہیں یہ خبر ملی کہ باغی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے درپے ہیں، تو انہوں نے آپ کو ان کا دفاع کرنے اور شورش پسندوں کو مدینہ منورہ سے باہر نکال دینے کی پیش کش کی، مگر آپ نے اس خدشہ کے پیش نظر ان کی اس پیش کش کو رد کر دیا کہ اس سے خونریزی ہو گی۔[3] کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیے بغیر اپنے بیٹوں کو ان کے پاس بھیجا جن میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بڑی محبت کرتے اور ان کا احترام کیا کرتے تھے، جب ان کا محاصرہ کر لیا گیا تو انہوں نے حسن رضی اللہ عنہ کو قسم دی کہ وہ اپنے گھر لوٹ جاؤ تاکہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔[4] انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے بھتیجے! واپس لوٹ جائیں یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔[5]صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو محاصرہ کے دن بیت خلافت سے زخمی حالت میں اٹھایا گیا تھا۔[6] ان کے علاوہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ، محمد بن حاطب رضی اللہ عنہما اور مروان بن حکم کو بھی زخم آئے۔ اس دوران حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ تھے۔[7] محاصرہ کے دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب لوگوں سے زیادہ دفاع حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا جس کے گواہ مروان بن حکم ہیں۔[8] اسی طرح ابن عساکر جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس پانچ سو زرہ پوش لوگ موجود ہیں، آپ اجازت دیں تو میں ان لوگوں سے آپ کا دفاع کروں۔ اس لیے کہ آپ نے ایسا کوئی
Flag Counter