Maktaba Wahhabi

120 - 503
کام نہیں کیا جس کی وجہ سے آپ کو قتل کرنا جائز ہو۔ اس کے جواب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا خون ہو۔[1] متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محاصرہ کے دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ مثلاً: جب شورش پسندوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پانی بند کر دیا اور آپ کے اہل خانہ پیاس کی شدت کی وجہ سے قریب الموت ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس پانی سے بھری ہوئی تین مشکیں بھجوائیں مگر وہ ان تک نہ پہنچ پاتیں اگر اس کے لیے بنوہاشم اور بنوامیہ کے متعدد آزاد کردہ غلام زخمی نہ ہوتے۔ واقعات برق رفتاری سے آگے بڑھتے گئے اور آخر کار شرپسند عناصر اور باغی لوگوں نے آپ کو شہید کر ڈالا۔ جب یہ خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ملی جن کے زیادہ تر لوگ مسجد میں موجود تھے تو وہ وحشت زدہ ہو گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں سے پوچھا: جب تم دروازے پر موجود تھے تو پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو کیسے شہید کر دیا گیا؟ اس دوران انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو تھپڑ بھی مارا جب کہ وہ پہلے ہی زخمی تھے۔[2] انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سینہ پر ضرب لگائی اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور اور ابن طلحہ رضی اللہ عنہما کو برا بھلا کہا۔ پھر وہ ناراضی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے: تم ہمیشہ کے لیے برباد رہو۔ میرے اللہ میں تیرے سامنے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نے نہ تو انہیں قتل کیا اور نہ کسی کو ہی اس کا اشارہ کیا۔[3] فتنہ کے ایام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بڑی دلیری کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ ان سے مشاورت کرتے رہے۔ ان کی خیر خواہی کرتے اور سمع و اطاعت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سب سے بڑھ کر ان کا دفاع کیا اور انہیں کبھی برائی کے ساتھ یاد نہ کیا۔ آپ نے اصلاح احوال کی بڑی کوشش کی، خلیفۃ المسلمین اور ان کے خلاف خروج کرنے والوں کے درمیان افہام و تفہیم کے لیے سرگرم عمل رہے۔ مگر صورت حال ان کے کنٹرول سے باہر ہو چکی تھی۔ اللہ کا فیصلہ یہی تھا کہ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو شہادت کی موت سے مشرف ہو کر فوز و فلاح سے ہم کنار ہونا ہے۔[4] اور مفسدین کو یہ گناہ اپنے سر لینا ہے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے قتل عثمان رضی اللہ عنہ کو ناپسند کیا اور ان کے خون ناحق سے براء ت کا اظہار کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبات کے دوران اور دیگر متعدد مواقع پر یہ بات قسم اٹھا کر بیان کی کہ انہوں نے نہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔ نہ کسی کو اس کا حکم دیا، نہ کسی کو اس کا اشارہ کیا اور نہ اسے پسند ہی کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ سے یہ بات متعدد ایسے طرق سے ثابت ہے جو قطعیت کا فائدہ دیتے ہیں۔[5] اس کے برعکس روافض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ ان کی رضامندی سے ہوا۔[6] شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں وارد بعض اخبار و روایات کو ذکر کرنے کے بعد
Flag Counter