Maktaba Wahhabi

130 - 503
اس سے انکار کر دیا۔‘‘[1] ایسی روایات بکثرت موجود ہیں اور وہ اس امر کا اشارہ کرتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ لے کر اٹھے تھے اور انہوں نے اس بات کی صراحت کر دی تھی کہ اگر خلیفہ مظلوم کے قاتلوں پر شرعی حد قائم کر دی جائے تو وہ علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کر لیں گے اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ انہیں عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر شرعی حد قائم کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ پھر کیا کرتے؟ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے اور ان سے بیعت کر لیتے اور ان کے ساتھ وہ تمام لوگ بھی ان سے بیعت کر لیتے جو ان کے ساتھ خلیفہ مظلوم کے قاتلوں پر شرعی حد کے نفاذ کی بنیاد پر لڑ رہے تھے۔ لیکن اگر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے دل میں کوئی ایسی بات چھپائے ہوئے تھے جس کا انہوں نے اظہار نہیں کیا تھا تو وہ اپنے اس مقصد میں ناکام رہتے اور اپنی خواہشات کی تسکین نہ کر پاتے۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار کاتبان وحی اور قائدین صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے آپ سب سے بڑھ کر حلم و حوصلہ کے مالک تھے۔ دریں حالات یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ وہ ایک ناپائیدار حکومت کے لیے شرعی خلیفہ کے ساتھ جنگ کرتے رہے اور مسلمانوں کے خون بہاتے رہے؟ جبکہ ان کا اپنا یہ فرمان ہے: ’’اللہ کی قسم! اگر مجھے اللہ اور غیر اللہ میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جائے تو میں اللہ کا ہی انتخاب کروں گا۔‘‘[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’ اے اللہ ! انھیں ہادی اور مہدی بنا دیجیے اور ان کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔‘‘[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’یا اللہ! انھیں (معاویہ رضی اللہ عنہ ) کتاب کی تعلیم دیجیے اور انھیں عذاب سے محفوظ رکھنا۔‘‘[5] جہاں تک شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کے موقف میں غلطی کا تعلق ہے تو اس کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنے کو ردّ کر دیا، ، خون کا مطالبہ کرنے والے کے لیے اس کا خود فیصلہ کرنا درست نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ پہلے حاکم کی اطاعت قبول کرے اور پھر اپنا دعویٰ حاکم کے سامنے پیش کرے اور اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرے۔[6] ائمہ فتویٰ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کے لیے بھی سلطان سے ہٹ کر ازخود کسی سے قصاص لینا اور اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے، وہ اس کے لیے سلطان سے رجوع کرے یا اس کے مقرر کردہ کسی صاحب اختیار شخص سے۔ اس لیے کہ ازخود کارروائی کرنے سے فتنہ کھڑا ہو گا اور انتشار پیدا ہو گا۔[7] یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کیا اور انہوں نے ظن غالب کی رو سے یہ سمجھا کہ
Flag Counter