Maktaba Wahhabi

143 - 503
گئے۔ مثلاً حسن ابراہیم حسن تاریخ الاسلام میں، محمد خضری بک تاریخ الدولۃ الامویۃ میں اور عبدالوہاب نجار تاریخ الخلفاء الراشدون میں اور کتنے ہی ایسے دیگر مورخین جنہوں نے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے میں اپنا سا کردار ادا کیا۔ ابن مخنف کی روایت یہ تصور کراتی ہے کہ جب اہل شام نے تحکیم قرآن کی تجویز پیش کی تو علی رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اسے مسترد کر دیا اور پھر بعد ازاں اسے ان قراء کے دباؤ کے تحت قبول کر لیا جو آگے چل کر خوارج کے نام سے معروف ہوئے۔[1] یہ روایت اس امر کی متقاضی ہے کہ معاذ اللہ علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہا۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ امت کے سادات اور پھر خاص طور سے ان کے رئیس اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کسی کو گالی دیں۔ اس روایت کے غیر معتبر ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس کا ایک راوی ابو مخنف رافضی ہے اور یہ ایسی روایت ہے جو ایک پاکیزہ بحث میں قدم نہیں جما سکتی اور نہ یہ اس روایت کے سامنے ہی ٹھہر سکتی ہے جسے امام احمد بن حنبل حبیب بن ابو ثابت کے طریق سے روایت کرتے ہیں، حبیب کا بیان ہے کہ ابو وائل (حضرت علی کے طرف دار) کے پاس آیا تو اس نے بتایا کہ ہم جنگ صفین میں شامل تھے جب اہل شام کے ساتھ جنگ کا محاذ گرم ہو گیا تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: علی رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن بھیجیں اور انہیں کتاب اللہ کی طرف بلائیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس سے انکار نہیں کریں گے۔ ایک آدمی قرآن لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ فیصلہ کرے گی: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ وَہُمْ مُّعْرِضُوْنَo﴾ (آل عمران: ۲۳) ’’کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان میں فیصلہ کرے، پھر پھر جاتا ہے ایک گروہ ان میں سے اور وہ ہیں ہی حق سے منہ موڑنے والے۔‘‘ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے یہ تسلیم ہے، میں اس کا زیادہ حق دار ہوں۔ اس پر وہ قراء جو بعد میں خوارج کے نام سے مشہور ہوئے اپنے کندھوں پر تلواریں رکھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: امیر المومنین! کیا ہم ان لوگوں کے پاس نہ جائیں تاکہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے؟ اس پر سہل بن حنیف انصاری اٹھے اور کہنے لگے: لوگو! اپنے آپ کو ہی الزام دو۔ ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اگر ہم لڑائی کو بہتر خیال کرتے تو ضرور لڑتے، وہ اس صلح کی بات کر رہے تھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی، پھر انہوں نے صلح حدیبیہ کے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی مخالفت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ فتح کے نزول کے بارے میں بتایا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یقینا یہ فتح ہے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس قضیہ کو قبول کیا، آپ واپس مڑے تو
Flag Counter