Maktaba Wahhabi

144 - 503
لوگ بھی آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔[1] سہل بن حنیف نے ان لوگوں کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا جو بھائیوں کے مابین جنگ جاری رکھنے کے داعی تھے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! اپنے دین کے بارے میں اپنی رائے کو ہی موردِ الزام ٹھہراؤ۔[2] انہوں نے لوگوں کے سامنے اس بات کو واضح کیا کہ بات چیت اور صلح سے انحراف کا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں اس لیے کہ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ فتنہ ہے۔ جس کے انجام کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ سہل نے کہا: ہم نے جب بھی کسی ڈر کے وقت تلواریں اپنے کندھوں پر رکھیں تو اس کا نتیجہ وہ نکلا جسے ہم اچھا خیال کرتے تھے مگر اس جنگ کا یہ حال ہے کہ ہم فساد کے ایک سوراخ کو بند کرتے ہیں تو دوسرا کھل جاتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں اس سے کس طرح نمٹنا ہے۔[3] ان صحیح روایات میں فتنہ کے علم برداروں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والوں کی تردید ہے جو جھوٹی اخبار و روایات وضع کر کے اور از خود اشعار گھڑ کے انہیں ان بلند پایہ صحابہ و تابعین کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جو جنگ صفین میں شامل رہے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کیے بغیر کتاب اللہ کو حکم تسلیم کرنے کی دعوت اور علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ان سے بیعت کیے بغیر اسے قبول کر لینا جنگ صفین کے احداث و واقعات کا رخ موڑنے میں ایک اہم قدم ثابت ہوا، اس لیے کہ جس جنگ نے بہت سارے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اس نے اس امر پر اتفاق کی صورت پیدا کر دی کہ جنگ کو روک کر مسلمانوں کے خون بچانا ایک ایسی ضرورت ہے جس سے امت کی شان و شوکت کا تحفظ اور دشمن کے سامنے اس کی قوت کی حفاظت ہے۔ جو کہ اس کی زندگی اور ذمہ دارانہ رویے کی دلیل ہے۔[4] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کو موقوف کرنے کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے تحکیم کو پسند کیا اور اسے فتح قرار دیتے ہوئے کوفہ واپس لوٹ گئے،[5] اور اختلافِ امت کے خاتمہ اور اس میں اتحاد و یگانگت کے لیے تحکیم سے کئی امیدیں وابستہ کر لیں۔ طرفین کی طرف سے تحکیم کے تصور تک رسائی میں چند عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا جن میں سے چند حسب ذیل ہیں: ا: یہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں ٹکراؤ رکوانے اور ان کے خون بچانے کی ان اجتماعی اور انفرادی کوششوں میں سے آخری کوشش تھی جن کا آغاز، جنگ جمل کے فوراً بعد سے ہی ہو گیا تھا مگر ان میں ابھی تک کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ اس سلسلہ کی آخری کوشش گھمسان کی جنگ کے دوران معاویہ رضی اللہ عنہ کا وہ خط تھا جو انہوں نے جنگ بند کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام لکھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ اگر فریقین کو علم ہوتا
Flag Counter