Maktaba Wahhabi

162 - 503
انہوں نے دو حاکموں کا فیصلہ قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا، چنانچہ اہل عراق نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اور اہل شام نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو اپنا حکم منتخب کر لیا، پھر انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ دومۃ الجندل کے مقام پر جمع ہوں گے اور اگر اس سال ایسا نہ ہو سکا تو وہ آئندہ سال اذرح کے مقام پر اکٹھے ہوں گے، پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ واپس لوٹے تو حروریہ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ان سے بغاوت کر دی اور پھر ان سے جنگ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ’’ لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کا نعرہ لگا دیا … الخ[1] مگر یہ روایت مرسل ہے اس لیے کہ زہری موقع پر موجود نہیں تھے، اور جیسا کہ علماء نے قرار دیا ہے اس کی مرسل روایات کو دلیل کے طور سے پیش نہیں کیا جا سکتا۔[2] اس واقعہ کی ایک دوسری سند ہے جسے ابن عساکر نے اپنی سند سے زہری تک نکالا ہے اور یہ بھی مرسل ہے۔ اس کا ایک راوی ابوبکر بن سبرہ ہے جس کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ احادیث وضع کیا کرتا تھا۔[3] نیز اس کی سند میں واقدی ہے اور وہ محدثین کے نزدیک متروک ہے۔[4] اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ اہل شام نے مصاحف کو بلند کیا اور کہنے لگے: ہم تمہیں کتاب اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اس کے احکامات کے مطابق فیصلہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مگر یہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی چال تھی، چنانچہ وہ صلح پر آمادہ ہو گئے اور اس کے لیے انہوں نے ایک معاہدہ تحریر کیا کہ وہ سال کے اختتام پر اذرح کے مقام پر ملاقات کریں گے، انہوں نے دو ایسے حاکموں کا تقرر کیا جو لوگوں کے معاملات کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں گے اور لوگ ان کے فیصلہ کو خوشی سے تسلیم کریں گے۔ اس کے لیے علی رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور پھر لوگوں میں تقسیم پیدا ہو گئی، لہٰذا جب علی رضی اللہ عنہ کوفہ واپس گئے تو بہت سارا اختلاف اور فساد بھی ساتھ لیتے گئے، آپ کے لشکر میں موجود آپ کے ساتھیوں نے ہی آپ کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور یہ کہتے ہوئے تحکیم کا انکار کر دیا کہ ’’لا حکم الا للہ‘‘ حکم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ الفت و انس اور اتحاد و اتفاق کو ساتھ لے کر شام واپس لوٹے، سال کے اختتام پر شعبان ۳۸ھ میں حکمین اذرح کے مقام پر اکٹھے ہوئے اس دوران بہت سارے لوگ بھی ان کے پاس جمع ہو گئے، اندرونِ خانہ ان کا جس امر پر اتفاق ہوا تھا علانیہ طور سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کر دی۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بات کا آغاز کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو ان کے عہدوں سے معزول کر دیا مگر جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بات کی تو انہوں نے علی کو تو معزول کر دیا مگر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برقرار رکھا۔ اس طرح حکمین اور وہاں موجود لوگوں میں تفرقہ پیدا ہو گیا اور اہل شام نے ذو القعدہ ۳۸ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی۔[5] جہاں تک ابو مخنف کے طرق کا تعلق ہے تو وہ تمام کے تمام اس کی اور
Flag Counter