Maktaba Wahhabi

178 - 503
تو کہنے لگے: ابن ابو طالب کی موت سے فقہ اور علم جاتے رہے۔ یہ سن کر ان کا بھائی عتبہ کہنے لگا: اہل شام کو آپ کے منہ سے یہ بات نہیں سننی چاہیے۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جانے دیں۔[1] ایک دفعہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ضرار صدائی سے فرمایا کہ مجھ سے علی کے اوصاف بیان کریں۔ اس نے کہا: امیر المومنین! مجھ سے درگزر فرمائیں۔ مگر جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے اصرار کیا تو وہ کہنے لگا: اگر ان کے اوصاف بیان کرنا ضروری ہیں تو علی رضی اللہ عنہ کے مقاصد بڑے عظیم تھے، وہ بڑی قوت کے مالک تھے، فیصلہ کن بات کرتے،[2] عادلانہ فیصلے کرتے، ان کے ہر پہلو سے علم کے چشمے پھوٹتے اور وہ حکمت پر مبنی گفتگو کرتے تھے، دنیا اور اس کی زیب و زیبائش سے متنفر، رات اور اس کی تنہائی سے مانوس تھے، بکثرت رویا کرتے اور طویل سوچ و بچار میں پڑے رہتے۔ آپ کو چھوٹا لباس اور سادہ کھانا پسند تھا، وہ ہم میں ایک عام آدمی کی طرح موجود رہتے، جب ہم ان سے سوال کرتے تو وہ اس کا جواب دیتے اور اگر کسی معاملہ کی آگاہی چاہتے تو ہمیں اس سے آگاہ کرتے، اللہ کی قسم! اگرچہ ہم ان کے قریب تھے اور وہ ہم سے قریب، تو بھی ہم ان کی ہیبت کی وجہ سے ان سے بات نہ کر پاتے۔ دین دار لوگوں کی تعظیم کرتے اور مساکین کو اپنے نزدیک رکھتے ، طاقت ور ان کے باطل میں طمع نہ کرتا، کمزور ان کے عدل سے مایوس نہ ہوتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے انہیں متعدد بار دیکھا جب رات اپنے سائے پھیلا دیتی اور ستارے غروب ہو جاتے تو وہ اپنی داڑھی کو پکڑ کر بیمار انسان کی طرح تڑپتے اور غمگین انسان کی طرح روتے اور فرماتے: اے دنیا! میرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دے، تو میرے درپے ہوتی ہے یا میرے لیے بنتی سنورتی ہے۔ مجھ سے دور ہو جا، مجھ سے دور ہو جا، میں نے تجھے تین طلاق دے دیں جن میں رجوع کی گنجائش نہیں ہے، تیری عمر بڑی مختصر ہے اور تیرے خطرات بہت زیادہ۔ آہ، زاد سفر بہت کم، سفر بہت طویل اور راستہ پر خطر ہے۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: اللہ ابو الحسن پر رحم فرمائے، اللہ کی قسم! وہ انہی اوصاف سے متصف تھے۔ ضرار! ان پر تیرے غم کی کیا کیفیت ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا غم اس ماں جیسا ہے جس کی گود میں اس کے شیرخوار بیٹے کو ذبح کر دیا جائے۔[3] عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس بیٹھے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا اور پھر بیٹھ گیا، میں اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا پھر انہیں گھر میں داخل کر کے اس کا دروازہ بند کر دیا گیا، میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، پھر زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے باہر تشریف لائے: رب کعبہ کی قسم! فیصلہ میرے حق میں ہوا، پھر جلد ہی معاویہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور وہ کہہ رہے تھے: رب کعبہ کی قسم! مجھے معاف کر دیا گیا۔[4]
Flag Counter