Maktaba Wahhabi

180 - 503
روایت میں ہے کہ آپ نے ان سے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم سے اپنی شرائط پر بیعت لوں گا۔ انہوں نے ان کے بارے پوچھا تو فرمایا: جس سے میں صلح کروں گا اس سے تم بھی صلح کرو گے اور جس سے میں جنگ کروں گا اس سے تم بھی جنگ کرو گے۔[1] ابن سعد کی روایت میں ہے: علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حسن رضی اللہ عنہ نے اہل عراق سے دو بیعتیں لیں: امارت پر اور اس بات پر کہ جہاں وہ داخل ہوں گے وہاں اہل عراق بھی داخل ہوں گے اور جس سے وہ راضی ہوں گے اس سے اہل عراق بھی راضی ہوں گے۔[2] گزشتہ روایات سے مستفاد ہوتا ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالنے کے فوراً بعد صلح کے لیے فضا ہموار کرنی شروع کر دی تھی، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے طور سے اپنی گرفت مضبوط بنانا شروع کر دی، عمال اور امراء کا تقرر کیا، لشکر تیار کیے، عطیات تقسیم کیے اور جنگجوؤں کے عطیات میں ایک ایک سو کا اضافہ کر دیا۔ جس سے آپ نے ان کے دل موہ لیے اور وہ آپ سے راضی ہو گئے۔[3] حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرنے کی بجائے ان سے جنگ کرنا بھی ممکن تھا، عسکری، اخلاقی، سیاسی اور دینی پہلوؤں سے ان کی یکتا شخصیت اس کام کے لیے ان کی ممد و معاون تھی علاوہ ازیں انہیں … کئی ایسے تجربہ کار اور مردان کار کی حمایت بھی حاصل تھی جو اُن کے لیے فضا ہموار کر سکتے تھے مثلاً قیس بن سعد بن عبادہ، حاتم بن عدی طائی وغیرہ، یہ سب لوگ بدرجہ اتم قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال تھے، مگر حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے مسلمانوں کے خون بچانے، امت کو متحد کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اخروی اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے صلح و آشتی میں دلچسپی دکھائی اور حکومت اور حکومتی مراعات سے بے رغبتی کا مظاہرہ کیا، پھر انہوں نے آگے بڑھ کر اصلاحی پروگرام کی قیادت کی، وحدت امت کا تاج اپنے سر پر سجایا اور تمام تر قوت و طاقت کے باوجود معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ ہمارے اس موقف کی تائید مندرجہ ذیل امور سے ہوتی ہے: ۱۔ علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب شوریٰ کی بنیاد پر ہوا تھا جس کے نتیجہ میں وہ حجاز، یمن، عراق اور ان تمام مقامات اور علاقوں سے شرعی اور قانونی خلیفہ قرار پائے جو اُن کے والد کے ماتحت تھے، آپ نے یہ منصب خلافت چھ ماہ تک سنبھالے رکھا، اور یہ مدت اس خلافت راشدہ کے ضمن میں آتی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرمایا تھا کہ اس کی مدت تیس سال ہے پھر بادشاہت کا دور دورہ ہو گا۔ اس سلسلہ میں آپ کا ارشاد ہے: ’’میری امت میں تیس سال خلافت رہے گی اس کے بعد بادشاہت قائم ہو جائے گی۔‘‘[4] اسی حدیث کے بارے میں ابن کثیر رقمطراز ہیں: خلافت کی یہ
Flag Counter