Maktaba Wahhabi

181 - 503
تیس سالہ مدت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت پر پوری ہوتی ہے اس لیے کہ وہ ماہ ربیع الاوّل ۴۱ھ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاوّل ۱۱ھ میں ہوئی یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے حسن رضی اللہ عنہ کی دست برداری تک کی درمیانی مدت پورے تیس سال بنتی ہے، آپ کے اس ارشاد کا شمار دلائل نبوت میں ہوتا ہے۔ صلوات اللّٰہ و سلامہ علیہ و سلم تسلیما۔[1] اس بنا پر حسن بن علی رضی اللہ عنہما پانچویں خلیفہ راشد قرار پاتے ہیں۔[2] آپ کی خلافت کی قانونی حیثیت کے بارے میں متعدد علماء نے گفتگو کی ہے جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں: ابوبکر بن العربی،[3] قاضی عیاض،[4] ابن کثیر،[5] شارح عقیدہ طحاویہ،[6] مناوی،[7] اور ابن حجر ہیثمی۔[8] اگر حسن رضی اللہ عنہ چاہتے تو اپنی شرعی پوزیشن کی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو تھکا سکتے تھے اور شامی حلقوں میں منظم پروپیگنڈہ مہم شروع کر کے ان کا اعتماد حاصل کر سکتے تھے یا کم از کم معاویہ رضی اللہ عنہ پر ان کے اعتماد کو متزلزل کر سکتے تھے اور یہ اس لیے کہ وہ جس معنوی قوت اور روحانی اثر و نفوذ کے مالک تھے اس کی حیثیت کوئی معمولی نہیں تھی، ایک تو اس لیے کہ انہیں شرعی اور قانونی حیثیت حاصل تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ۲۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی قائدانہ صلاحیتیں:… ایک دن نفیر بن حضرمی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آپ خلافت کے خواہش مند تھے، تو اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: عرب کے بااثر لوگ میری مٹھی میں تھے وہ اس سے صلح کرتے جس سے میں صلح کرتا اور اس سے جنگ کرتے جس سے میں جنگ کرتا، مگر میں نے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے خلافت کو ترک کر دیا۔[9] حسن رضی اللہ عنہ کی یہ شہادت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ان کی پوزیشن بہت مضبوط تھی اور یہ کہ ان کے پیروکار صلح ہو یا جنگ ہر حالت میں ان کے ساتھ تھے، علاوہ ازیں آپ بڑا موثر خطابی اور تقریری ملکہ رکھتے تھے۔ فصاحت بیانیہ، قوت تاثیر اور جذبات کی صداقت سے متصف تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ آپ نواسہ رسول تھے۔ ان سب چیزوں نے آپ کی قوت اور خود اعتمادی میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھا۔ ہمارے پاس اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی مشکل اور مایوس کن حالات میں اہل کوفہ کو اپنے باپ کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا، اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جنگ میں شریک ہو کر قتل و قتال کرنے اور فتنہ میں حصہ لینے سے روک رکھا تھا اور اس کے لیے وہ انہیں فتنہ میں شریک ہونے سے ممانعت پر مشتمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنایا کرتے تھے۔[10] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی طرف حضرت حسن سے پہلے محمد بن ابوبکر اور محمد بن
Flag Counter