Maktaba Wahhabi

201 - 503
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے: ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَ لَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَ لَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ)) ابن جریج کہتے ہیں: مجھے کئی لوگوں نے خبر دی کہ اسے ورّاد نے اس کی خبر دی تھی۔ اس کے بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ دعا پڑھنے کی تلقین کیا کرتے ہیں۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ سنت نبویہ کی اتباع کے بڑے حریص تھے۔ سعید بن مسیب اور حمد بن عبدالرحمن بن عوف سے مروی ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ آخری دفعہ مدینہ منورہ آئے تو آپ نے منبر نبوی پر فرمایا: اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن یوم عاشوراء کے بارے میں سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص اس کا روزہ رکھنا چاہتا ہے وہ رکھ لے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: ’’اور میں روزے سے ہوں۔‘‘ اس پر لوگوں نے بھی یہ روزہ رکھنا شروع کر دیا۔[2] اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ ان جیسی چیزوں سے منع فرمایا کرتے تھے، انہوں نے اپنی آستین سے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور فرمایا: بنی اسرائیل اس وقت ہلاک ہو گئے جب ان کی عورتوں نے اسے اپنانا شروع کر دیا۔[3] یعنی عورت کا اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بالوں کو ملانا۔ متعدد احادیث صحیحہ سے بال ملانے والی اور ملوانے والی عورتوں پر لعنت ثابت ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے لوگوں سے کہا: تم نے بہت بری بدعت شروع کر رکھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زُور[4] (جھوٹ) سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام زُور اس لیے رکھا کہ اس میں تزویر اور تبدیلی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ان آثار و احادیث کی روشنی میں ہم دیکھ رہے کہ وہ عاشوراء کے روزہ کی سنت کے احیاء کی حرص کرتے ہیں۔ جسے لوگوں نے غیر اہم سمجھ رکھا تھا۔ اسی طرح وہ لوگوں میں رواج پکڑنے والی ایک بدعت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں اور وہ ہے مصنوعی بال لگانے کے حوالے سے یہودیوں کی بدعت کی تقلید کرنا۔[5] عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج روایت کرتے ہیں کہ عباس بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبدالرحمن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کروایا اور عبدالرحمن نے ان سے اپنی بیٹی کا نکاح کروا دیا اور اسے ہی دونوں کا مہر قرار دے دیا۔ اس وقت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما خلیفہ تھے انہوں نے مروان کو ایک خط کے ذریعے سے حکم دیا کہ وہ ان دونوں میں تفریق کروائیں۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ یہ وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔[6] معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کے انفرادی، معاشرتی اور خاندانی الغرض تمام معاملات میں اقامت سنت کی نگرانی کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔[7] معاویہ رضی اللہ عنہ وقت کے تقاضے کے مطابق احادیث بیان کیا کرتے تھے کتب حدیث میں وارد ہے کہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور ابن عامر کے پاس گئے۔ ان کے لیے ابن عامر رضی اللہ عنہ تو
Flag Counter