Maktaba Wahhabi

206 - 503
اور لوگوں کے مابین تعلقات کا ایک بال بھی باقی رہ جائے تو وہ کبھی ٹوٹنے نہ پائے گا جب وہ اسے کھینچیں گے تو میں اسے ڈھیلا کر دوں گا اور جب وہ ڈھیلا کریں گے تو میں اسے کھینچ لوں گا۔ ان کے حلم و حوصلہ کا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے اور ابو جہم نامی ایک آدمی کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی تو اس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہہ ڈالی۔ جسے سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو سر جھکا لیا اور پھر اسے اوپر اٹھاتے ہوئے فرمایا: ابوجہم سلطان وقت سے بچ کر رہا کر اس لیے کہ وہ بچوں کی طرح غضب ناک ہوتا ہے اور شیر کی طرح گرفت کرتا ہے اور اس کا قلیل بھی کثیر لوگوں پر غالب آ جاتا ہے۔ پھر انہوں نے اسے مال و زر دینے کا حکم فرمایا اور وہ خوشی خوشی واپس لوٹ گیا۔[1] یوں معاویہ رضی اللہ عنہ کی بردباری، حسن خلق اور برائی کے بدلے احسان نے ابوجہم کو شدید طور سے متاثر کیا اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کی زلف وفا کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کا طرز عمل بالکل اس ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق تھا: ﴿وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo وَمَا یُلَقَّاہَا اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقَّاہَا اِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍo﴾ (حم السجدۃ: ۳۴-۳۵) ’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتیں، برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست، اور یہ بات انہی کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں، اور اسے سوائے بڑے نصیب والے کے اورکوئی نہیں پا سکتا۔‘‘ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم و حوصلہ، شجاعت و دلیری اور عزت و وقار کی تعریف کرتے ہوئے خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قریش کے اس نوجوان اور اس کے سردار کے بیٹے کی بات نہ کرو۔ وہ ایسا باہمت ہے کہ غیض و غضب کی حالت میں بھی مسکراتا رہتا ہے۔ اس سے اگر کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے تو اسے راضی کر کے ہی لیا جا سکتا ہے اور وہ ایسا انسان ہے کہ اس کے سر کی چیز کو اس کے قدموں کے نیچے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔[2]معاویہ رضی اللہ عنہ کی توصیف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بڑی باریک بینی پر مبنی ہے۔ جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حلم و حوصلہ اور عزت و وقار کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز تھے اور یہ ایسے اوصاف حمیدہ ہیں جنہوں نے انہیں اس حد تک محفوظ بنا رکھا تھا کہ ان سے زبردستی کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا، ان کی یہی وہ صفات تھیں جن کی وجہ سے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں شام کی امارت پر برقرار رکھا۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے: بندے کو جو کچھ بھی دیا جائے ان میں سے افضل ترین چیزیں عقل اور حلم ہیں۔ انہی کی وجہ سے جب اسے الوہی نعمتوں کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو وہ انہیں یاد کرتا ہے جب اسے کچھ دیا جائے تو
Flag Counter