Maktaba Wahhabi

205 - 503
اور ان کا یہ خلق ان کے اور ان کی رعیت کے ان افراد کے درمیان ہمزہ وصل کا کام دیتا تھا جو ان کے ساتھ قدرے سخت رویہ اختیار کرتے تھے یا وہ کسی چیز پر اپنا حق جتاتے ہوئے ان کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرتے اور وہ اس بارے ان کے مخالف ہوتے۔ حلم و حوصلہ پر مبنی ان کا یہ اخلاق ان کی حکومت کے استحکام کے لیے کارگر ثابت ہوا ان اخلاقی اقدار سے کام لیتے ہوئے وہ مخالفین کے قہر و غضب کو ضبط کر لیتے اور انہیں اپنی سیاست پر راضی اور مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ مکارم اخلاق جن کے اہم ترین عناصر میں حلم و حوصلہ، عفو و درگزر اور صبر و کرم کا شمار ہوتا ہے اسی قسم کا ہی کردار ادا کیا کرتے ہیں، ان سے مروی ان کے ان اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حلم میں قدرے کمزوری کی آمیزش بھی ہوتی ہے جس طرح کہ نصرت میں کسی قدر عزت و قوت کا بھی اختلاط ہوتا ہے، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ اس کمزوری پر خوشی کا اظہار کرتے تھے اس لیے کہ اس کے قابل تعریف نتائج کے طور سے دوستوں اور مددگاروں کی رفاقت میسر آتی ہے۔[1] امیر عراق زیاد کے نام ان کے مذکورہ بالا خط سے ان کی عمدہ حکمت عملی کا اظہار ہوتا ہے جس سے معاشرے میں انارکی، بدامنی اور انتشار پیدا کرنے والے عناصر کو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے جو سلامتی اور استقامت کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے ارباب عقل و دانش ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نظر آتے اور ان کے مکارم اخلاق اور خاص طور سے حلم و حوصلہ کا بڑی خوبصورتی سے ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بارے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ایک دن عبدالملک بن مروان نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں نے حلم، قوت برداشت اور جود و کرم میں کسی کو معاویہ رضی اللہ عنہ جیسا نہیں دیکھا۔[3] قبیصہ بن جابر کہتے ہیں: میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو حلیم الطبع، خوددار، نرم مزاج سردار نہیں دیکھا۔[4] ابن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: معاویہ شیر سے بڑھ کر جری اور بڑے بارعب انسان تھے، و اللہ! میں تو چاہتا ہوں کہ جب تک جبل ابو قبیس باقی رہے معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما بھی ہم میں باقی رہیں۔[5] ابن زبیر رضی اللہ عنہما ان کی درازی عمر کے اس لیے متمنی تھے کہ انہیں ان کی وفات کے بعد حالات میں تبدیلی آنے کا خوف لاحق تھا۔[6] حبر الامت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاست اور حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: مجھے معلوم ہے کہ معاویہ لوگوں پر کیسے غالب آ گئے، جب وہ اڑتے تو معاویہ زمین پر گر جاتے اور جب وہ گرتے تو معاویہ اڑنے لگتے۔[7] ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ دیکھتے کہ منہ زور سیلاب ان کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ اس کا راستہ نہ روکتے بلکہ اس کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ وہ آگے بڑھ جاتا اور پھر میدان خود سنبھال لیتے اور پھر جس طرح چاہتے حالات پر اپنی گرفت مضبوط بناتے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی اس پالیسی کا اظہار اس طرح فرماتے ہیں: اگر میرے
Flag Counter