Maktaba Wahhabi

324 - 503
کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایسا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اکسانے پر ہوا۔ مگر یہ روایت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ دونوں کی تنقیص کا سبب بنتی اور دونوں کے بارے میں یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ باطل طریقے سے مسلمانوں کا مال ہڑپ کرنے پر متفق تھے۔[1] مگر یہ باطل اور غیر صحیح ہے۔ اس بارے میں صحیح اور اصل صورت حال صحیح بخاری میں دیکھی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن سمرۃ اور عبداللہ بن کریز پر مشتمل معاویہ رضی اللہ عنہ کے وفد کے ارکان سے کہا: ہم عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم نے اس مال سے کچھ خرچ کیا ہے۔ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں نے کہا: اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔[2] حضرت حسن رضی اللہ عنہ ان اموال کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو خود انہوں نے اور بنو عبدالمطلب سے دوسرے لوگوں نے قبل ازیں حاصل کیے تھے، وہ یہ چاہتے تھے کہ ان سے اس کی واپسی کا مطالبہ نہ کیا جائے، انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے آئندہ کے لیے کسی رقم کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔[3] ابن الاعثم ذکر کرتا ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: معاویہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کے مال میں میرے ساتھ شرط لگانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔[4] یہ سبھی کے علم میں ہے کہ خراج کا حصول حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور حسن رضی اللہ عنہ اور اہل بصرہ کے مابین اس پہلو سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا مگر روایت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ’’دار ابجرد‘‘ کا خراج حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو منتقل کیے جانے والے اموال میں شامل نہیں تھا۔[5] مروی ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے ذمہ کئی قرضے واجب الادا ہیں، لہٰذا میرے لیے بیت المال سے چار لاکھ یا اس سے کچھ زائد درہم جاری کریں۔[6] ابن عساکر ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: انہیں بیت المال سے رقم ادا کی جائے جس سے وہ اپنے ذمہ واجب الاداء قرضہ جات ادا کر سکیں اور دیگر مالی ذمہ داریاں پوری کر سکیں، اپنے باپ کے اہل و عیال، ان کی اولاد اور اپنے اہل بیت کے اخراجات ادا کر سکیں۔[7] بعض مورخین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھ جنگجوؤں کو ادا کرنے کے لیے بیت المال سے پچاس لاکھ درہم وصول کیے۔ اس سے کچھ رقم ان کے اہل بیت اور دیگر اصحاب و رفقاء میں بھی تقسیم کی گئی۔[8] اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض فوجیوں میں مال و زر کی تقسیم حالات کی سنگینی میں کمی لانے میں ممد و معان ثابت ہوتی ہے۔ مگر صحیح بخاری کی روایت کی جانب میلان زیادہ ہوتا ہے، بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے ان اموال کے بارے میں بازپرس نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو انہوں نے اپنی خلافت کے ایام میں وصول کیے تھے، جو روایات اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دس لاکھ درہم اور ان کے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بیس لاکھ درہم سالانہ ادا کریں گے اور عطیات و نوازشات میں بنو ہاشم کو بنو عبدشمس پر ترجیح دیں
Flag Counter