Maktaba Wahhabi

325 - 503
گے۔[1] اور گویا کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں خلافت کو فروخت کر دیا تھا، تو یہ روایات اور جو کچھ ان کی تحلیل اور تفسیر میں کہا گیا ہے تو انہیں نہ تو قبول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ قابل اعتماد ہیں۔ اس لیے کہ ان سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے ذاتی مفادات کا احساس زیادہ اور امت کے مفادات کا احساس کم تھا۔[2] جہاں تک عطیات میں ان کے حق کا تعلق ہے تو ان پر صرف حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا نہیں بلکہ سب مسلمانوں کا حق تھا، البتہ اس چیز سے کوئی امر مانع نہیں کہ ان کا حصہ دوسروں سے زیادہ ہو، مگر وہ روایات میں ذکر کردہ بھاری رقوم کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتا تھا۔[3] ج: عطیات کی غیر مساوی تقسیم:… اسلام میں سب سے پہلے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیوان العطاء قائم کیا۔ جبکہ قبل ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں مال غنیمت کو جنگ کے فوراً بعد مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔[4] رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین میں حاصل ہونے والا مال غنیمت مولفۃ القلوب میں بھی تقسیم فرمایا تھا جس کی مقدار بہت زیادہ تھی۔[5] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے یہ قرار پایا کہ مال غنیمت کو تقسیم کرتے وقت بعض لوگوں کو ترجیح دینا امر مباح ہے اور اگر مسلمانوں کی مصلحت کا تقاضا ہو تو اسے درجہ استحباب میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔[6] پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب غزوات اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوا اور اس کے نتیجہ میں مال غنیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے اپنے احباب و اصحاب سے مشاورت کی جس کی روشنی میں دیوان العطاء قائم کرنے کا فیصلہ ہوا جس کی ذمہ داری عطیات کو معروف انداز میں تقسیم کرنا تھا اور جس میں سابقین اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کو دوسروں پر ترجیح دی جاتی تھی۔[7] پھر جب امویوں کا دور حکومت آیا تو انہوں نے اہل شام کو دوسروں پر ترجیح دی، اہل شام ان کے مخلص اعوان و انصار تھے اور انہیں ہی جہادی لشکروں میں مرکزی حیثیت حاصل تھی چاہے، وہ شمال میں رومیوں کے ساتھ ہو یا مغرب میں افریقہ اور اندلس کی فتوحات کی صورت میں یہی لوگ دولت اسلامیہ کی سلامتی کے محافظ اور اس کے مخالفین کا سر توڑنے کے ذمہ دار تھے۔ مختلف شہروں کے امراء و ولاۃ کے خلاف جب بھی کسی نے خروج کیا اور مصری لشکر اپنا اور اپنے نظام کا دفاع کرنے سے بے بس ہوئے تو انہوں نے شامی سپاہ کی مدد حاصل کی اور ان پر غلبہ حاصل کیا، ابن الاشعث[8] کے ساتھ قتال میں بھی یہی کچھ ہوا۔ یزید بن عبدالملک کے زمانے میں[9] یزید بن مہلب کی یورش کا مقابلہ
Flag Counter