Maktaba Wahhabi

327 - 503
کا عمل تسلسل سے جاری تھا۔ مال داری، خوشحالی اور جائز طریقہ سے ان سے لطف اندوز ہونے کی رغبت اس قدر عام ہو چکی تھی کہ کیا حاکم اور کیا محکوم سبھی مزید سے مزید کی جستجو میں سرگرداں تھے، مگر اس کے ساتھ ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زہد اور ان کے لباس کی بوسیدگی[1] اور ان کے عامل زیاد اور اس کے پیوند لگے کپڑوں[2] کے بارے میں وارد تاکیدی روایات و اخبار کا انکار بھی ممکن نہیں۔ حکمران طبقہ کے شاہانہ لباس اور ان روایات میں کوئی تناقض بھی نہیں بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نفوس عالیہ نہ تو زہد و ورع کو نقص خیال کرتی ہیں اور نہ ہی دنیوی نعمتوں کو حرام۔[3] اسی طرح اگر ہم ہمہ گیر نظروں سے اس دور کے مالی اخراجات کا جائزہ لیں تو ہمیں خوشحالی کے یہ مظاہر بنو امیہ اور ان کے خلفاء و امراء میں ہی نظر نہیں آئیں گے بلکہ بنو ہاشم، بنو زبیر وغیرہ کے بعض لوگ جن کا امویوں کے مخالفین و معارضین میں شمار ہوتا ہے وہ بھی بنو امیہ سے کم خرچ نہ تھے۔[4] اگر بنو امیہ نے محلات تعمیر کیے تھے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے اشراف عرب میں سے کتنے ہی لوگوں نے بڑے عالیشان اور قابل ذکر محلات تعمیر کیے تھے۔ عرب لوگ اسے باعث عزت خیال کرتے، اس پر فخر کرتے اور اپنے معززین میں سے ہر شخص سے اس کی توقع رکھتے تھے اگرچہ وہ کسی حکومتی منصب پر فائز نہ ہی ہوں۔[5] مالی اخراجات میں امویوں کے اس طرز عمل کی وجہ سے ہر طرف آسائش و خوشحالی کا دور دورہ ہوا۔ پھر امت میں اس کی جڑیں مزید گہری ہوئیں تو اس نے تباہ کن صورت حال اختیار کر لی جس کا نتیجہ صلیبیوں کے ہاتھوں بلاد شام، تاتاریوں کے ہاتھوں سقوط بغداد اور دولت عباسیہ کے زوال کی صورت میں سامنے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آسائش و تعیش کو ناپسند کرتا اور اس سے خبردار کرتا ہے: ﴿وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًاo﴾ (الاسراء: ۱۶) ’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہو جاتی ہے۔ پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی نسبتاً مال و اسباب کی بہتات تھی مگر انہوں نے اسے وجہ فساد نہیں بننے دیا تھا، اس کے سدباب کے طور پر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ سے نکل کر زمینوں پر جانے اور کاروبار کرنے سے روک دیا تاکہ اس طرح ان کے ہاتھوں میں زیادہ مال آنے کی وجہ سے غربت و امارت کے مابین کوئی
Flag Counter