Maktaba Wahhabi

328 - 503
حد فاصل کھڑی نہ ہونے پائے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو سکے، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مال و اسباب کے حوالے سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے بارے میں سخت پالیسی اختیار کی تاکہ وہ رعایا کے لیے برا نمونہ نہ بنیں اور لوگ ان کے نقش قدم پر چل کر تباہی سے دوچار نہ ہو جائیں۔ اگر حکمران کی طرف سے مال و زر کمانے اور اسے خرچ کرنے کے بارے میں ضروری حدود و قیود وضع نہ کی جائیں اور پھر ان کی پاسداری نہ کی جائے تو پھر سنت الٰہیہ کے مطابق اس کے طے شدہ نتائج کا سامنے آنا ضروری ہوتا ہے اور یہ اس لیے نہیں ہے کہ مال فے حد ذاتہ کوئی بری شے ہے بلکہ اس لیے کہ اس کے مثبت نتائج اخذ کرنے کے لیے جن انسانی کوششوں کی ضرورت تھی ان کے حوالے سے کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا، یاد رہے کہ مال کی آفت آسائش و تعیش ہے اور اس کا علاج حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں سنجیدگی کو پروان چڑھائیں اور اس کے لیے اپنی ذات کو بہترین نمونہ کے طور پر پیش کریں۔ اگر مال و زر کو بغیر کسی ضابطہ کے لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا جائے اور کسی سے کسی چیز کے بارے باز پرس نہ کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کے اخلاق و کردار کو تباہ کرنے کے لیے کچھ قوتیں بھی بڑی متحرک ہوں تو پھر اس نتیجہ کا انتظار کیا جائے جسے سنت ربانیہ ضروری قرار دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo﴾ (الروم: ۴۱) ’’خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے ممکن ہے کہ وہ باز آ جائیں۔‘‘ مال و زر کی بہتات ایک متعدی آفت ہے اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے اور اسے آگے بڑھنے سے نہ روکا جائے تو اس کا پھیلتے چلے جانا یقینی ہے، پھر جب اس کا آغاز خلافت کے محلات سے ہو تو معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے، اس لیے کہ حکام لوگوں کے لیے نمونہ ہوا کرتے ہیں۔ اگرچہ اموی بڑے خوشحال تھے مگر ان کا مالی فساد عباسیوں سے بہت کم تھا اس لیے کہ وہ ایک طرف اپنی حکومت کے استحکام میں زیادہ مصروف رہے اور دوسری طرف جہاد فی سبیل اللہ میں لگے رہے۔ عباسی، تو ان کے ہاتھ حکومت آنے کے بعد ان میں خوشحالی بڑی سرعت کے ساتھ سرایت کرنے لگی اور پھر خلافت کے محلات سے نکل کر امراء و وزراء کے محلات تک اور پھر وہاں سے ہوتی ہوئی ان کے تاجروں کے محلات تک جا پہنچی جن کی عالمی تجارت میں آمدن کئی ملین دینار تھی۔ آہستہ آہستہ اس فساد نے پہلے دار الخلافہ بغداد کو اور پھر دیگر اسلامی دار الحکومتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔[1]
Flag Counter