Maktaba Wahhabi

341 - 503
مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اسے اس مکان کا محاصرہ کرنے کا حکم دیا اور پھر انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا والی مقرر کیا۔ پھر ۴۵ھ میں اسے معزول کر کے اس کی جگہ زیاد بن ابیہ کو بصرہ کا والی متعین کر دیا۔ جب زیاد بصرہ پہنچا تو اسے شہر کی امن و امان کی بگڑتی صورت حال کا اندازہ ہوا اور پھر اس نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لیے سخت کار روائی کرنے کی دھمکی دی اور انہیں بتایا کہ وہ صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتا ہے۔ اس کے اس خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے اور نظام مملکت کو قائم رکھنے کے لیے عزم مصمم کیے ہوئے تھا۔[1] اگرچہ اس کے لیے اس نے جو طریقہ کار اپنانے کی بات کی وہ انتہائی قابل افسوس تھا۔ اس نے خطبہ کے دوران اعلان کیا: مجھے اللہ کی قسم! میں ولی کو ولی کے بدلے، مقیم کو مسافر کے بدلے، آنے والے کو جانے والے کے بدلے اور تندرست کو بیمار کے بدلے پکڑوں گا، یہاں تک کہ تم میں سے ایک شخص اپنے بھائی کو ملے گا اور اس سے کہے گا: سعد تو تو بچ جا سعید تو مارا گیا۔ یا پھر میرے لیے تمہارے نیزے سیدھے ہو جائیں گے۔[2] زیاد بن ابیہ کے عہد ولایت کے دوران بصرہ میں امن کس طرح قائم ہوا۔ اس کے بارے میں بلاذری روایت کرتے ہیں کہ زیاد نے عام لوگوں میں آوازوں کا شور سنا تو اس نے اس کا سبب دریافت کیا۔ اسے بتایا گیا کہ کسی آدمی نے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کسی کو اجرت پر رکھا ہے اور یہ اس لیے کہ چور جگہ جگہ پھرتے ہیں اور پولیس کا کہیں وجود نہیں۔[3] دوسرے دن زیاد نے پولیس کے سربراہ کو حکم دیا کہ عشاء کی نماز کے بعد راستوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی نفری متعین کی جائے۔[4] اس معاملے کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بلاذری بتاتے ہیں کہ پولیس نے تقریباً چار سو چوروں اور ڈاکوؤں کو ہلاک کر ڈالا۔[5] زیاد پہلا حکمران تھا جس نے لوگوں کو ان کے گھروں سے نکل کر ادھر ادھر کو گھومنے سے منع کر دیا تھا۔[6] اس کے بعد زیاد پولیس سربراہ کو باہر نکلنے کا حکم دیتا ہے، جب وہ گشت پر نکلتا تو وہ جس انسان کو بھی دیکھتا اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا، اس نے ایک رات ایک اعرابی کو پکڑ کر اسے زیاد کے حوالے کر دیا، زیاد نے اس سے پوچھا: کیا تو نے یہ اعلان نہیں سنا کہ رات کے وقت گھومنا پھرنا منع ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے یہ اعلان نہیں سنا، میں اپنی دودھ دینے والی اونٹنی کے ساتھ ادھر آیا، جب رات ہو گئی تو میں نے اسے کسی جگہ چھوڑ دیا اور خود صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا، مجھے امیر کے حکم کا کوئی علم نہیں ہے، زیاد کہنے لگا، اللہ کی قسم! میں تجھے تیرے قول میں سچا سمجھتا ہوں مگر تیرے قتل میں اس امت کی بہتری ہے، پھر اس کے حکم سے اس کی گردن اڑای دی گئی۔[7] اس جیسے ظالمانہ فعل کی شریعت میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے چاہے اس کے لیے جتنے بھی جواز گھڑ لیے جائیں۔[8]
Flag Counter