Maktaba Wahhabi

342 - 503
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بدوی کا قتل اس کے قتل میں دلچسپی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس سے اصل مقصود اہل بصرہ کو یہ بتانا تھا کہ والی شہر اپنے احکامات کی تنفیذ کے لیے سنجیدہ ہے اور یہ کہ قانون شکنی کا کوئی بھی مرتکب سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ اگرچہ اس کا کوئی بھی جواز نہ ہو۔ جیسا کہ اس نے اپنے خطبہ میں لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا۔ زیاد کا آخری ہدف لوگوں پر حکومت کی دھاک بٹھانا اور ان کی اطاعت گزاری کا حصول تھا چاہے اس کے لیے کوئی بھی طریقہ کار اپنانا پڑے کہ اس کے خیال میں بصرہ کے حالات اسی صورت میں امن عامہ کے اعتبار سے درست ہوں گے جب لوگوں کو پتا چلے گا کہ سزاؤں کے نفاذ میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔[1] زیاد بن ابیہ پر یہ امر مخفی نہیں تھا کہ امن و امان کے حالات پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے پولیس کو نئے سرے سے منظم کرنا ضروری ہے، لہٰذا اس نے اس کے حالات کے مطابق کچھ ضروری کارروائیاں کیں، جن میں سے قابل ذکر یہ امر ہے کہ اس نے پولیس میں کام کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا[2] یہاں تک کہ ان کی تعداد چار ہزار افراد تک جا پہنچی اور پولیس کے ایک سربراہ کی جگہ اس منصب پر دو لوگوں کومقرر کر دیا۔ پولیس اہلکاروں کی [3] یہ تعداد چار ہزار افراد تک پہنچنا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے: ۱۔ داخلی اضطراب کی شدت و سنگینی۔ ۲۔ پولیس اکثر اوقات اپنی خدمات سپاہ اسلام کو بھی پیش کیا کرتی تھی۔[4] زیاد انتظامی امور میں اس حد تک بالغ نظر تھا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر میرے اور خراسان کے درمیان رسی بھی ضائع ہو جائے تو مجھے معلوم ہو جائے گا کہ اسے کس نے پکڑا۔[5] اس کا نتیجہ بقول طبری یہ نکلا: زیاد پہلا والی تھا جس نے سلطان وقت کی پوزیشن کو مضبوط بنایا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو مستحکم کیا۔ لوگوں کو اطاعت گزاری کا پابند بنایا اور حکم عدولی پر انہیں سخت سزائیں دیں، تلوار کو نیام سے باہر نکالا، محض گمان پر گرفت کی اور شبہ گزرنے پر سزا دی جس پر لوگ اس کی طاقت سے بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئے۔ ہر طرف امن و سلامتی کا دور دورہ ہو گیا۔ لوگ ایک دوسرے سے پرامن ہو گئے۔ اگر کسی مرد یا عورت کی کوئی چیز کہیں گر جاتی تو کوئی دوسرا اس سے تعرض نہ کر سکتا یہاں تک کہ اس کا مالک خود ہی آ کر اسے اٹھاتا۔ عورتیں گھر کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوئی رہتیں اور کوئی ادھر آنکھ اٹھانے کی بھی جرأت نہ کر سکتا، اس نے لوگوں کے معاملات اس انداز سے نمٹائے کہ اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ لوگ اس سے اس قدر خوف زدہ رہتے تھے کہ اس سے قبل وہ کسی سے اتنے خوف زدہ نہ ہوئے ہوں گے۔[6] اس کی انہیں انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے ساتھ کوفہ بھی اس کی عملداری میں دے دیا اور پھر اس نے امن و امان کی صورت حال کو اس قدر مستحکم کیا کہ کوفہ اور بصرہ دونوں جگہ داخلی امن و سکون کے قیام کے حوالے سے امویوں کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہو گیا اور پولیس اہم اور موثر ترین
Flag Counter