Maktaba Wahhabi

379 - 503
کیا ہے اور اس میں حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ حسن رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے، لیکن حاکم نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ دونوں روایات وارد اور محفوظ ہیں، اور اس کا حتمال بھی موجود ہے اس لیے کہ اس میں مسجد کی طرف واپسی کا ذکر ہے۔[1] عبدالمنعم العزی نے اپنی کتاب ’’اقباس من مناقب ابی ہریرۃ‘‘میں دلائل قطعیہ اور کافی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ابناء علی رضی اللہ عنہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کرتے تھے، نہ صرف وہ بلکہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکروں کے امراء اور ان کے سرکردہ لوگ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعدد روایات کے راوی ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے والے تابعین میں سے متعدد لوگ بھی ان سے روایات اخذ کرتے ہیں، جماہیر روافض اور اہل کوفہ میں سے اولاد علی رضی اللہ عنہ کے محبین جن کا تعلق تبع تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے ساتھ تھا وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے، ان سے استدلال کرتے اور اپنی کتابوں میں ان کا اندراج کرتے تھے۔[2] تاریخی علمی حقیقت یہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی ایسی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اموی حکمرانوں کے حامی تھے یا وہ حضرت علی اور ان کے بیٹوں کے خلاف آمادہ جنگ رہتے تھے، یہ کچھ کہنا کذب و افتراء اور حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ امویوں کی مدح و تعریف میں ان کی طرف منسوب احادیث موضوع اور ضعیف ہیں، اس فن کے ماہرین نے کذابین اور ان احادیث کو وضع کرنے والوں کی نشاندہی کر دی ہے۔[3] جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ دولت امویہ نے اپنی آراء کی تائید میں کئی احادیث وضع کیں تو یہ ایسا دعویٰ ہے کہ جس کا کذابوں کے خیال کے علاوہ اور کہیں کوئی وجود نہیں ہے، تاریخ سے اس دعویٰ کی تصدیق نہیں ہوتی، اس قسم کا دعویٰ کرنے والوں سے ہمارا سوال ہے کہ اموی حکومت کی وضع کردہ یہ احادیث کہاں ہیں؟ ہمارے علماء سند کے بغیر حدیث نقل کرنے کے عادی نہیں ہیں اور صحیح احادیث کی اسناد کتب حدیث میں محفوظ ہیں۔ ہمیں تو ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس کی سند میں عبدالملک، یزید، ولید یا ان کے عمال میں سے کسی ایک مثلاً حجاج یا خالد قسری کا نام آتا ہو، اگر ان کا کوئی وجود تھا تو وہ کہاں کھو گئیں؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ وضع احادیث کا ارتکاب اموی حکومت نے خود نہیں کیا تھا بلکہ اس نے دوسروں سے یہ کام کروایا تھا تو اس کی کیا دلیل ہے؟[4] رہا عبدالحسین اور ابو ریہ کا یہ دعویٰ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے امویوں کو خوش کرنے اور علویوں سے انتقام لینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کذب بیانی سے کام لیا، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس سے بری ہیں، انہوں نے اس بارے میں جو روایات نقل کی ہیں وہ تمام کی تمام ضعیف اور لا اصل ہیں۔[5]
Flag Counter