Maktaba Wahhabi

400 - 503
پر فائز تھے اور مسلمانوں کی تمام نسلوں میں سے کوئی نسل بھی حتیٰ کہ انحطاط کے زمانوں میں بھی اس بلند تر معیار سے محروم نہیں رہی۔ البتہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کے متفرق نمونوں میں کمی ضرور آتی گئی۔ عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں تحریک جہاد کا ازسر نو آغاز ان کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی، انہوں نے بلاد شام پر اپنی ولایت کے دوران اس حوالے سے بڑی شہرت پائی تھی اور اعزازی مقام حاصل کیا تھا، شام بڑا وسیع جہادی محاذ تھا، ایک مجاہد کی حیثیت سے ان کی شہرت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہیں ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ادوار خلافت میں بری اور بحری دونوں طرح کے دشمن کے خلاف برسرپیکار ہونے کی توفیق سے نوازا گیا اور انہیں شام کے شمالی ساحل پر بڑی بڑی فتوحات حاصل ہوئیں، مزید برآں انہیں اسلامی بحریہ کی تأسیس کرنے، رومیوں کو سمندری شکست سے دوچار کرنے اور مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار ان سے قیادت و سیادت چھین لینے کا شرف عظیم حاصل ہوا۔[1] الغرض دولت امویہ میں جہاد فی سبیل اللہ کو مسلمانوں کی زندگی میں اصل الاصول کی حیثیت حاصل رہی۔ جہاد اور فتوحات کے حوالے سے مسلمان قیادت کے لیے اموال غنیمت کا حصول اصل محرک نہیں تھا، اگرچہ بعض افراد کے بارے میں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر ان لوگوں سے کوئی بھی لشکر خالی نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس قسم کے چند افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھے: ﴿وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا﴾ (اٰل عمران: ۱۵۲) ’’تم میں سے کوئی دنیا کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔‘‘ مگر یہ صورت حال نہ تو مسلمانوں کی فتوحات کے درمیان ان کے نکتہ نظر کی عکاسی کرتی ہے اور نہ اس فکری قیادت کی جسے خلیفہ اور دیگر قائدین ترتیب دیتے اور اسے سپاہِ اسلام نافذ کرتی ہے۔ مزید برآں اس سے امت کے نکتہ نظر اور اس کی عمومی رائے کی بھی عکاسی نہیں ہوتی۔[2] اس کی دلیل یہ ہے کہ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم نہ صرف یہ کہ ان فتوحات میں شریک رہے بلکہ وہ مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب بھی دلاتے رہے جس کی حوادثات جہاد اور جنگی محاذوں پر امویوں کی کوششوں سے وضاحت ہوتی ہے؛ مثلاً رومی محاذ جہاں مجاہدین اسلام کو شجاعت و دلیری کے جوہر دکھانے کا موقع ملتا تھا وہ بیت المال پر ایک بوجھ تھا اس لیے کہ وہاں کے حملوں میں کوئی خاص پیش قدمی نہیں ہو رہی تھی،[3] خصوصاً جب ہم قسطنطنیہ پر ان تین بڑے حملوں کا ذکر کرتے ہیں جن پر بڑے بھاری اخراجات اٹھے تھے۔[4] اموی عہد حکومت کے مجاہدین نے قربانی، شجاعت بہادری اور اخلاص نیت کے بڑے خوبصورت اور یادگار واقعات چھوڑے۔ ان مجاہدین کا تعلق قائدین اور امراء کے ساتھ ہو یا عام سپاہ اسلام کے ساتھ، یا ان کا شمار علماء و زاہدین کی جماعتوں کے ساتھ جنہوں نے عبادتِ جہاد کا فہم حاصل کیا اور پھر عملاً اس میں حصہ لیا۔ اخلاص و نیک نیتی اور قربانی کے یہ واقعات تمام جہادی محاذوں پر اور جہاد کے تمام مراحل میں دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ اس امر کی واضح
Flag Counter