Maktaba Wahhabi

409 - 503
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بصرہ کے والی تھے تو حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کا بہت زیادہ اکرام کیا اور فرمایا: میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی کا صلہ دوں گا، اس وقت ان کے پاس تقریباً چالیس ہزار درہم موجود تھے انہوں نے وہ ساری رقم ان کی خدمت میں پیش کر دی۔[1] دوسری روایت میں ہے: جب ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے لیے گھر کی تمام اشیاء سے دست بردار ہو گئے۔ مزید برآں انہوں نے ان کی خدمت میں کئی تحائف، بہت سارے خدمت گزار، چالیس غلام اور چالیس ہزار دینار پیش کیے، ان کی یہ عزت اس لیے کی گئی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر مہمان کے طور پر ٹھہرایا تھا، اور جو اُن کے لیے بڑے شرف کا باعث تھا۔[2] جب ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے کہا: کیا آپ نے وہ کچھ نہیں سنا جو لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ ان کا اشارہ واقعہ افک کی طرف تھا۔ تو انہوں نے اس سے دریافت کیا: ام ایوب! کیا تم ایسا کر سکتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہرگز نہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت بہتر ہیں۔ اس پر اللہ نے یہ آیت اتاری: [3] ﴿لَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنفُسِہِمْ خَیْرًا﴾ (النور: ۱۲) ’’اسے سنتے ہی مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخات قائم کی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات سرزمین روم میں قسطنطنیہ کی دیوار کے قریب ہوئی۔ اس وقت آپ یزید بن معاویہ کے لشکر میں شامل تھے اور اسی نے ہی آپ کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔[4] ایک دوسری روایت میں آتا ہے: دوران جنگ ابوایوب رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے تو انہوں نے فرمایا: جب میری موت واقع ہو جائے تو میری میت کو اٹھا لینا اور جب دشمن تمہارے سامنے آئے تو مجھے اپنے قدموں میں پھینک دینا۔ خبردار! میں تمہیں وہ حدیث سناتا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’جو آدمی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘[5] ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو قسطنطنیہ کی دیواروں کے پاس دفن کیا گیا۔ جن لوگوں نے آپ کو دفن کیا ان سے رومی کہنے لگے: اے عرب گروہ! آج رات تمہارے لیے کوئی خاص بات تھی۔ انہوں نے جواب دیا: ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص کی موت واقع ہو گئی تھی۔[6]
Flag Counter