Maktaba Wahhabi

416 - 503
مختلف مذاہب کے پیروکار عیسائیوں کی مجالس میں شریک ہوئے اور ان کے دینی جدل و جدال اور مختلف مناقشات سماعت کرتے۔[1] یوں اموی اسلامی حکومت نے مذہبی رواداری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی جو کہ رسالت اسلامیہ کی عظمت و رفعت، غیر مسلم رعایا کے ساتھ اس کی رواداری اور اس دینی تعصب اور تشدد سے بعد کی دلیل ہے جس کا ناروا الزام اکثر مستشرقین اس پر لگایا کرتے ہیں۔[2] ۴۔ سفیروں کے آداب:… وفود اور سفراء کی آمدورفت اور تبادلہ کا نظام عہد اموی کے ساتھ ہی خاص نہیں تھا بلکہ یہ سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے عہد سے جاری تھا۔ سفیر کا انتخاب کرتے وقت اس کی شخصیت، شرافت و شہرت اور اس کی عقل و فکر کو پیش نظر رکھا جاتا تھا۔ دولت اسلامیہ کا سفیر اس انداز سے گفتگو کرتا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ کی نبوت و رسالت کی غرض و غایت پر روشنی پڑتی اور وہ سرکاری طور پر اپنی ریاست کا نام لیتا۔[3] وفود اور سفراء کو یہ اہمیت صرف دولت اسلامیہ امویہ میں ہی حاصل نہیں تھی بلکہ رومی بھی اپنے سفیروں کو بڑی اہمیت دیا کرتے تھے، رومی اپنے سفیروں کا انتخاب ذہین و فطین اور ایسے دین دار لوگوں سے کرتے جو اپنے دینی امور سے بخوبی آگاہ ہوتے، اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی فصاحت کے ساتھ گفتگو کر سکتے۔[4] مناقشہ کرنے اور اپنا موقف پیش کرنے کی صلاحیت سے بدرجہ اتم متصف ہوتے، خلفاء اور بادشاہ غیر ملکی سفیروں اور وفود کو بڑی پذیرائی بخشتے، ان کا خلفاء کے محلات میں استقبال کرتے اور ان کی آراء کو بڑی توجہ سے سنتے، جب معاویہ رضی اللہ عنہ قصر الخضراء نامی اپنے محل کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے بیزنطیوں کے قاصد سے اس بارے سوال کیا تو اس نے اس کے بارے میں تبصرہ کرتے کہا: اس کا بالائی حصہ تو چڑیوں کے لیے ہے جبکہ نچلا حصہ چوہوں کے لیے۔ اس پر انہوں نے اس کی رائے کو درست تسلیم کرتے ہوئے محل کو دوبارہ پتھروں سے تعمیر کرنے کا حکم دے دیا۔[5] رہے بیزنطی تو وہ عرب سفیروں کا کنیسہ آیا صوفیا، پانی کے پلوں اور قسطنطنیہ کے اردگرد کمانڈروں کی رہائش گاہوں میں استقبال کرتے۔[6] جب غیر ملکی سفراء واپس جانے لگتے تو ان کے اور انہیں بھیجنے والوں کے احترام میں انہیں قیمتی تحائف پیش کیے جاتے۔[7] بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس سے دونوں حکومتوں کے پیش نظر باہمی احترام کا اور صلح کے استحکام کے لیے نیک نیتی کا اظہار تھا۔ اس کے ساتھ طرفین ایک دوسرے کے سامنے اپنی قوت اور خوشحالی کا اظہار بھی کرنا چاہتے تھے۔[8] طرفین کے خلفاء اور بادشاہ اپنے اپنے سفیروں کی کڑی نگرانی کرتے اور ان کے جملہ تصرفات و حرکات کا
Flag Counter