Maktaba Wahhabi

415 - 503
دوسرا ’’ الحمد للّٰہ‘‘ ہے جو کہ کلمہ شکر ہے، تیسرا ’’ اللّٰہ اکبر‘‘ ہے جس سے نماز، رکوع اور سجدہ کا آغاز ہوتا ہے اور پانچواں کلمہ ہے: ’’ لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ‘‘ وہ چار چیزیں جن میں روح تو ہے مگر وہ رحم مادر میں نہیں رہیں وہ ہیں: آدم، حواء، موسی علیہم السلام کا عصا اور اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح ہونے والا مینڈھا، وہ جگہ جس تک سورج کی رسائی صرف ایک بار ہوئی سمندر ہے جب وہ موسیٰ علیہ السلام اور بنو اسرائیل کے لیے پھٹ گیا تھا اور جو قبر صاحب قبر کو لے کر چلتی رہی وہ اس مچھلی کا پیٹ ہے جس میں یونس علیہ السلام موجود رہے۔[1] ۲۔ تجربات کا تبادلہ:… عربی اور رومی دونوں ہی زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں رہے، وہ نقل و اقتباس پر اعتماد کرتے اور ایجادات و اختراعات پر بھی، البتہ اس میدان میں مسلمانوں نے جو کچھ رومیوں سے اخذ کیا وہ محض اقتباس نہیں تھا بلکہ انہوں نے اس میں بہت ساری تبدیلیاں کیں، کبھی اس میں اضافہ کیا گیا اور کبھی اس کی کانٹ چھانٹ کی گئی یہاں تک کہ وہ دین اسلام سے ہم آہنگ ہو گیا، اس کی معاشرتی ترقی کے مظاہر ہیں جن سے متاثر ہو کر امویوں نے مساجد میں دلچسپی لیتے ہوئے ان کی توسیع و تزیین کی۔[2] معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے ان متعدد رومیوں کی خدمات حاصل کیں جو بلاد شام میں انتظامی امور میں کاتب کی ذمہ داریاں ادا کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے سرجون بن منصور رومی کو اپنا کاتب اور ابن اثال نصرانی کو اپنا طبیب متعین کیا۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ نصاریٰ کے ساتھ بڑی رواداری کا مظاہر کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ بروکلمان اس کی گواہی دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’اور وہ مسیحیت کے ساتھ بہت زیادہ مل جل گئے۔‘‘ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار میں سرجون بن منصور نصرانی نے مشیر مالیات کی حیثیت سے کام کیا۔ نصاریٰ کو خلیفۃ المسلمین معاویہ رضی اللہ عنہ کی رواداری کا اعتراف تھا، وہ لوگ ان کے لیے مخلص بھی رہے اور انہیں ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا۔ اس امر کا نصرانی روایات میں بھی تذکرہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ ہسپانوی تاریخی کتب میں بھی اس کا چرچا ہے۔[4] ۳۔ دولت بیزنطیہ کا اسلامی رواداری سے متاثر ہونا:… مؤلف العدوی رقمطراز ہیں کہ نصاریٰ کے ساتھ امویوں کی دینی رواداری کے اثرات دولت بیزنطیہ پر بھی مرتب ہوئے، یہ امر معروف ہے کہ یہ حکومت دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ ساتھ اپنی رعایا پر بھی مظالم ڈھاتی اور ان کے ساتھ سنگدلانہ رویہ اختیار کرتی تھی، مگر اسلامی حکومت کے ظہور اور بڑی تعداد میں نصاریٰ کے اس کی ماتحتی میں آ جانے کی وجہ سے بیزنطی حکومت نے اپنے انداز حکومت اور سیاست کو نئے خطوط پر مرتب کرنا شروع کر دیا۔[5] معاویہ رضی اللہ عنہ
Flag Counter