Maktaba Wahhabi

418 - 503
تحریک میں بڑا مثبت اور اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بارے میں امام ذہبی رقمطراز ہیں: سید التابعین، زاہد عصر ابومسلم خولانی کا نام صحیح قول کی رو سے عبداللہ بن ثوب ہے۔[1] جب وہ مدینہ منورہ آئے تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے تھے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کر لیا گیا تھا،[2] انہوں نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے اسود عنسی کا راستہ روکنے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کیا، اس فتنہ کے دوران ابو مسلم اسلام پر ثابت قدم رہے۔ نبوت کے جھوٹے دعوے دار اسود عنسی نے انہیں دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا مگر آپ کو اس سے کوئی گزند نہ پہنچی۔ اسود سے کہا گیا: اگر تو نے اسے یہاں سے نہ نکالا تو یہ تیرے پیروکاروں کو برباد کر دے گا۔ اس پر اس نے انہیں وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تو آپ مدینہ منورہ چلے آئے۔ اپنی سواری بٹھائی اور مسجد نبوی میں داخل ہو کر نماز ادا کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو ان سے پوچھا: آپ کہا سے آئے؟ انہوں نے جواب دیا: یمن سے۔ انہوں نے پھر دریافت کیا: اس آدمی کا کیا بنا جسے کذاب نے نذر آتش کر دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: وہ عبداللہ بن ثوب تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم وہی ہو؟ انہوں نے اس کا جواب اثبات میں دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں گلے لگا کر رونے لگ گئے۔ پھر ان کے ساتھ گئے اور انہیں اپنے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان بٹھا دیا اور فرمانے لگے: میں اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس نے مجھے موت نہ دی یہاں تک کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں وہ آدمی دکھا دیا جس کے ساتھ اس نے وہی سلوک کیا جو سلوک اس نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔[3] عہد معاویہ میں دنیا میں موجود اس تابعی کبیر کا تعلق اہل شام کے ساتھ تھا جن سے بہت ساری مخلوق متاثر ہوئی۔ خولانی رحمہ اللہ بہت بڑے عبادت گزار تھے۔ ابو عاتکہ کہتے ہیں: ابو مسلم نے مسجد میں ایک کوڑا لٹکا رکھا تھا۔[4] آپ فرمایا کرتے تھے: میں اس کوڑے کا حیوانات سے زیادہ حق دار ہوں، جب آپ عبادت کرتے کرتے تھک جاتے تو اپنی پنڈلیوں پر ایک یا دو کوڑے برسا دیتے۔ شرحبیل سے مروی ہے کہ دو آدمی ابومسلم سے ملاقات کرنے کے لیے آئے مگر وہ اس وقت گھر میں نہیں تھے، وہ مسجد میں آئے تو انہیں نماز پڑھتے پایا جس پر وہ ان کا انتظار کرنے لگے۔ ان میں سے ایک نے شمار کیا کہ انہوں نے تین سو رکعت نماز ادا کی ہے۔[5] ابومسلم جب بھی باران رحمت کے لیے دعا کرتے بارش برسنے لگتی۔[6] آپ بڑے مستجاب الدعوات تھے۔ محمد بن زیاد ابومسلم سے روایت کرتے ہیں کہ کسی عورت نے ان کی بیوی کو خراب کرنا چاہا تو آپ نے اس کے لیے بددعا کی جس سے وہ اندھی ہو گئی۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور توبہ کرنے لگی۔ آپ نے عرض کیا: یا اللہ! اگر یہ صدق دل سے توبہ کر رہی ہے تو اس کی بینائی واپس لوٹا دے۔ اس پر اس کی بینائی بحال ہو گئی۔[7] آپ ارض روم
Flag Counter