Maktaba Wahhabi

419 - 503
میں جہاد میں شریک رہے، مروی ہے کہ جب وہ کسی دریا پر آتے تو فرماتے: اللہ کا نام لے کر دریا سے پار گزر جاؤ۔ پھر آپ اپنے ساتھیوں کے سامنے دریا سے پار گزر جاتے اور پھر وہ بھی گہرا دریا عبور کر جاتے پھر جب وہ دریا عبور کر جاتے تو فرماتے: اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو تو اس کا ضامن میں ہوں۔ ایک دفعہ ان میں سے ایک آدمی نے اپنی کوئی چیز گم کر دی۔ جب آپ دریا سے پار گزر گئے تو وہ کہنے لگا: میری فلاں چیز گم ہو گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا: میرے پیچھے پیچھے آئیں۔ وہ آپ کے پیچھے چلا تو دیکھا کہ وہ دریا میں ایک لکڑی کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے، آپ نے فرمایا: اسے پکڑ لو۔[1] حکمران ابومسلم کے ساتھ برکت حاصل کیا کرتے اور مقدمات پر انہیں امیر بنایا کرتے تھے۔[2] آپ رحمہ اللہ نے ارض روم میں وفات پائی۔ آپ بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کے ساتھ موسم سرما کی جنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے، اسی دوران ان کی موت واقع ہو گئی۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی موت کا علم ہوا تو فرمانے لگے: اصل مصیبت تو ابومسلم خولانی رحمہ اللہ اور کریب بن سیف انصاری رحمہ اللہ کی وفات سے ٹوٹی۔[3] آپ کا شمار دانا لوگوں میں ہوتا تھا، ان سے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہنے کے بارے میں ان کا یہ قول مروی ہے: اگر میرے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہو جسے اللہ تعالیٰ بڑی اچھی طرح نشوونما دے یہاں تک کہ جب وہ بھرپور جوانی کو پہنچ جائے اور وہ میرے لیے سب سے بڑھ کر خوش کن ہو تو اللہ تعالیٰ اسے مجھ سے واپس لے لے تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پسند ہے۔[4] یہ ابومسلم عبداللہ بن ثوب خولانی رحمہ اللہ کے کمال توحید کی دلیل ہے اور وہ یوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تکلیف دہ فیصلوں پر صبر کے مرحلے سے گزر کر قضا و قدر پر راضی رہنے کے مرحلہ تک جا پہنچے اور انہوں نے خوبصورت اور کڑیل جوانی کے حامل لخت جگر کی موت کو اپنے لیے دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے پسندیدہ قرار دے دیا۔[5]
Flag Counter