Maktaba Wahhabi

439 - 503
’’تاہرت‘‘ شہر میں مسلمانوں کی اپنے دشمنوں کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوئی تو انہوں نے ان کے ساتھ شدید جنگ کی، لیکن چونکہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی، لہٰذا انہیں بڑی کٹھن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا مگر آخرکار وہ جیت گئے اور ان کے رومی اور بربر دشمن شکست فاش سے دوچار ہوئے اور اسلحہ سمیت بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔[1] اس کے بعد وہ مغرب اقصیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور پیش قدمی کرتے ہوئے طنجہ جا پہنچے وہاں ان کا سامنا ’’جومیان‘‘ نامی ایک رومی کمانڈر سے ہوا، اس نے آپ کو خوبصورت تحائف پیش کیے اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا۔[2] جب عقبہ نے اس سے بحر اندلس کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا: وہ محفوظ ہے اس کا قصد نہیں کیا جا سکتا۔[3] پھر انہوں نے اس سے بربروں اور رومیوں کے بارے میں دریافت کیا، تو اس نے کہا: تم روم کو اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو، جبکہ تمہارے آگے صرف بربر ہی ہیں۔ عقبہ نے پوچھا کہ ان کا ٹھکانا کدھر ہے؟ اس نے بتایا: سوس ادنیٰ میں، اور وہ بے دین لوگ ہیں۔[4] عقبہ نے ان معلومات سے استفادہ کیا اور پھر سوس ادنی کے علاقہ میں جانے کے لیے جنوب مغرب کی طرف چل نکلا۔ جہاں ان کا ایک بربری گروہ سے ٹکراؤ ہوا تو اسے شکست سے دوچار کر کے وادی درعا کے صحراء کی طرف بھگا دیا، ورعا شہر میں مسجد تعمیر کی پھر مراکش کے صحراؤں کو شمال مغرب کی طرف چھوڑتے ہوئے منطقہ ’’تافلت‘‘ کی راہ لی جس کا مقصد بلاد طنجہ میں داخل ہونا تھا، ان لوگوں نے لڑائی کیے بغیر ان کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ ’’اغمات‘‘ نامی شہر کے صنہاجہ قبائل نے بھی ان لوگوں کی طرح ان کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ عقبہ اس کے بعد مغرب کی سمت شہر تفیس[5] کے لیے روانہ ہوئے جہاں انہوں نے بیزنطیوں اور بربروں کے کئی گروہوں کا محاصرہ کر لیا مگر ان کے قلعہ بند ہونے نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور آپ فاتح بن کر شہر میں داخل ہو گئے، اس طرح انہوں نے سوس اقصیٰ کے علاقوں کو آزاد کرا لیا، اس کے دار الحکومت ’’ایجلی‘‘ میں داخل ہو گئے اور اس میں ایک مسجد تعمیر کی، پھر انہوں نے وہاں موجود مختلف قبائل کو اسلام کی دعوت دی جسے جزولہ کے قبائل نے تسلیم کر لیا، پھر ’’ماسہ‘‘ نامی شہر اور وہاں سے بحر محیط پر واقع ’’ایفران‘‘[6] کی طرف روانہ ہوئے۔ اس طرح عقبہ بن نافع نے محیط اطلس کے ساحل پر پہنچنے کے ساتھ بلاد مغرب کے زیادہ تر حصوں کو آزاد کروا لیا، ہمارے تاریخی مصادر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عقبہ بن نافع جب محیط اطلس تک پہنچے تو کہنے لگے: میرے پروردگار! اگر یہ سمندر میرے سامنے نہ آتا تو میں تیرے راستے میں جہاد کرتے ہوئے اس علاقے میں آگے بڑھتا جاتا اور ہر کافر سے جنگ کرتا یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی بھی عبادت نہ کی جاتی، پھر وہ تھوڑی دیر رکنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے: اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو فرمانے لگے: میرے اللہ!
Flag Counter