Maktaba Wahhabi

440 - 503
میں گھر سے فخر و غرور اور تکبر کی وجہ سے نہیں نکلا ہوں، تو اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم اس سبب کے طالب ہیں جس کا مطالبہ تیرے بندے ذوالقرنین نے کیا تھا اور وہ یہ کہ تیری بندگی کی جائے اور کسی چیز کو تیرا شریک نہ ٹھہرایا جائے، یااللہ! ہم دین کفر سے عناد رکھنے والے اور دین اسلام کا دفاع کرنے والے ہیں۔ یا ذالجلال و الاکرام! تو ہمارا ہو جا، ہمارے خلاف کسی کا نہ ہونا۔[1] پھر وہ واپس پلٹ آئے۔ ہم ان کے مذکورہ بالا قول سے ان کے شوق جہاد اور اس بڑی ذمہ داری کے شعور کا ادراک کر سکتے ہیں جو انہوں نے تبلیغ اسلام، دولت اسلام کی تقویت اور ان کافر حکومتوں کے خاتمہ کے حوالے سے اپنے سر لے رکھی تھی۔ جنہوں نے لوگوں تک نورِ اسلام کی رسائی کو روک رکھا تھا، وہ بحر محیط کے کنارے پر کھڑے ہیں اور (اس وقت) جانتے تھے کہ یہ مغرب کی طرف سے آباد زمین کی انتہاء ہے، ایسے میں ہم انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس بات پر گواہ بناتے ہیں کہ انہوں نے اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے مقدور بھر کوششیں کر ڈالیں، اس شہادت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عقبہ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس قدر گہرا تعلق قائم کر رکھا تھا، اور یہ کہ وہ قدم قدم پر اللہ عزوجل سے اس کی توفیق کے طلب گار ہوتے اور اس کی خوشنودی کے حصول کے خواستگار ہوتے تھے۔ ان کی یہ گفتگو ان کے نزدیک جہاد کے اصل مقصود پر بھی دلالت کرتی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ ان کے نزدیک جہاد اس وقت ہی موقوف ہو گا جب زمین سے شرک کا خاتمہ ہو جائے گا اور صرف اللہ عزوجل ہی کی عبادت کی جانے لگے گی اور یہ کہ جب تک شرک باقی رہے گا جہاد بھی موجود رہے گا۔ اس صورت میں جہاد دعوت الی اللہ کا جہاد ہے اور اس کی صورت یہ ہے انسانی سرکشی کا خاتمہ ہو اور دنیا کے تمام ممالک حکم اسلام کے تابع ہو جائیں تاکہ سب لوگوں کو فہم اسلام اور قبول اسلام کا موقع میسر آئے۔[2] عقبہ کا عمل جہاد پر ہی نہیں رک گیا تھا بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعمیر بھی کروایا کرتے تھے، مثلاً درعہ کی مسجد اور سوس اقصیٰ میں ماسہ کی مسجد۔[3] پھر وہ مساجد کی تعمیر کے بعد ان میں اپنے بعض ساتھیوں کو چھوڑ جاتے تاکہ وہ لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں اور انہیں شرائع اسلام سے آگاہ کریں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مغرب اقصیٰ کے زیادہ تر بربری لوگوں نے ان کے ہاتھ پر خوشی سے اسلام قبول کر لیا تھا، جیسا کہ صنہاجہ، ہسکورہ اور جزولہ کے لوگوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔[4] اسی طرح انہوں نے اپنے راستے میں روڑے اٹکانے والے سرکش لوگوں کو دباتے ہوئے انہیں اسلام کی اطاعت گزاری پر آمادہ کر لیا۔[5] عقبہ قبائل کی سرکشی کو روکنے کے لیے ان میں سے کچھ لوگوں کو اپنے پاس گروی رکھ لیتے اور ان میں سے ہی ایک آدمی کو ان کی نگرانی پر مامور کر دیتے، جیسا کہ انہوں نے مصمودہ کے ساتھ کیا، ان پر انہوں نے ابو مدرک زرعہ بن ابو مدرک کو مقرر کیا تھا جو کہ انہی کا ہی ایک رئیس تھا اور جو بعدازاں فتح اندلس میں بھی شریک ہوا۔[6]
Flag Counter