Maktaba Wahhabi

499 - 503
جواب دیا: آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر بھی؟ وہ کہنے لگے: و اللہ! وہ ان کے بارے میں تمہاری رائے سے بھی بہتر ہیں۔ پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا: مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بتائیں۔ انہوں نے جواب دیا: آپ ان سے زیادہ باخبر ہیں۔ ویسے ان کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم میں سے کوئی بھی ان جیسا نہیں ہے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان سے بھی ایسا ہی سوال کیا تو وہ کہنے لگے: میں تمہارے بعد انہیں سب سے بہتر خیال کرتا ہوں۔ وہ اچھے کاموں سے خوش ہوتے اور برے کاموں سے ناراض ہوتے ہیں اور ان کا اندرون ان کے بیرون سے بہتر ہے۔ منصب خلافت کو سنبھالنے والا ان سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح انہوں نے سعید بن زید اور انصار و مہاجرین میں سے متعدد لوگوں سے مشاورت کی اور بجز طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان سب کی رائے تقریباً ایک جیسی ہی تھی۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ان کی سخت گیری سے خائف تھے، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: آپ کل اللہ کو کیا جواب دیں گے جب وہ تم سے عمر رضی اللہ عنہ کو ہمارا خلیفہ بنانے کے بارے میں سوال کرے گا۔ آپ ان کی سخت مزاجی کے بارے میں تو آگاہ ہی ہیں۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: مجھے اٹھا کر بٹھا دو، کیا تم لوگ مجھے اللہ سے ڈراتے ہو؟ میں اللہ کو جواب دوں گا کہ میں نے تیری مخلوق پر تیری مخلوق کے بہترین آدمی کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔[1] آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کی سختی صرف اس لیے ہے کہ وہ مجھے نرم مزاج دیکھتے تھے۔ جب خلافت انہیں تفویض کی جائے گی تو وہ انہیں نرم دل اور معتدل بنا دے گی۔[2] پھر آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر انہیں وصیت نامہ لکھنے کا حکم دیا۔ ب: وصیت نامہ کا مضمون:… بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ … یہ وہ عہد ہے جو ابوبکر بن قحافہ نے اس وقت کیا جب ان کا دنیا میں آخری اور آخرت کا اوّل وقت ہے، ایسے میں تو کافر بھی ایمان لے آتا ہے، فاجر بھی یقین کر لیتا ہے اور کاذب سچ بولنے لگ جاتا ہے۔ میں نے اپنے بعد تم لوگوں پر عمر بن خطاب( رضی اللہ عنہ ) کو خلیفہ مقرر کیا ہے۔ تم ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو، میں نے تم لوگوں کی بھلائی اور بہتری میں قطعاً کوئی کوتاہی نہیں کی، اگر انہوں نے عدل سے کام لیا تو میرا ان کے بارے میں یہی خیال ہے اور میں ان کے بارے میں یہی علم رکھتا ہوں، اور اگر وہ کچھ اور ثابت ہوئے تو وہ اپنے کیے کے خود ذمہ دار ہوں گے، میں نے تو صرف خیر اور بھلائی کا اِرادہ کیا ہے اور غیب کا علم تو مجھے نہیں۔ ﴿وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ﴾ (الشعراء: ۲۲۷) ’’اور عنقریب ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ انہیں کیسی جگہ لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
Flag Counter