Maktaba Wahhabi

500 - 503
ج: آپ رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت خود لوگوں کو پڑھ کر سنائی:… جب یہ وصیت لکھی جا چکی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے خود پڑھ کر لوگوں کو سنانے کا ارادہ کیا تاکہ اس بارے میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور لوگوں کے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم اس شخص کی خلافت پر راضی ہو جس کا میں نے تمہارے لیے انتخاب کیا ہے، اللہ کی قسم! میں نے اپنے کسی عزیز رشتہ دار کو تمہارا خلیفہ نہیں بنایا، اور پھر میں نے صرف اپنی ہی رائے سے اسے خلیفہ نہیں بنایا بلکہ اصحاب الرائے لوگوں کے ساتھ مشاورت کے بعد اسے خلیفہ بنایا ہے، میں نے تم پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا ہے، پس تم ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ ان سب نے کہا: ہم نے سنا اور اطاعت کی۔[1] د: اللہ رب العزت سے دعا:… پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرنے لگے، اس دوران آپ سرگوشیاں کرتے رہے اور اندر کی باتیں سناتے رہے۔ آپ کی دعا کے الفاظ یہ تھے: یا اللہ! میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو تیرے نبی کے حکم کے بغیر والی مقرر کیا ہے جس سے میرے پیش نظر صرف مسلمانوں کی بہتری ہے، میں ان پر فتنہ سے ڈرا اور اس کے لیے بھرپور مشاورت کی اور اس کے بعد میں نے ان پر ان میں سے بہتر آدمی کو والی مقرر کیا۔ اب جبکہ تیرے حکم سے میری موت میرے سر پر کھڑی ہے تو تو ان میں میرا خلیفہ بن جا، پس وہ تیرے بندے ہیں۔[2] ھ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے سامنے وصیت پڑھنے کا مکلف ٹھہرانا:… حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو پابند کیا کہ وہ یہ وصیت لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور اسے ختم کرنے کے بعد ان کی موت سے پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے ان سے بیعت لیں تاکہ اس کی مزید توثیق ہو جائے، ان کے حکم کا نفاذ ہو جائے اور اس سے کوئی منفی اثرات سامنے نہ آئیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: اس وصیت نامہ میں جس شخص کا ذکر ہے کیا تم اس سے بیعت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ ان سب نے اس کا اقرار کیا اور اس پر راضی ہو گئے۔[3] و: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو وصیت:… حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو الگ کر کے انہیں چند وصیتیں فرمائیں تاکہ جب وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوں تو خلافت کے بارے میں اپنی بھرپور کوششیں کرنے کے بعد اپنی تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد حاضر ہوں۔[4] آپ نے انہیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: عمر! اللہ سے ڈرنا، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض حقوق ہیں جو رات سے متعلق ہیں انہیں وہ دن میں قبول نہیں کرتا، اسی طرح بعض حقوق دن سے متعلق ہیں جنہیں وہ رات میں قبول نہیں کرتا۔ جب تک فرائض ادا نہ کیے جائیں اللہ تعالیٰ نوافل کو قبول نہیں فرماتا، عمر! جو لوگ دنیا میں رہ کر حق کی اتباع
Flag Counter