Maktaba Wahhabi

502 - 503
کا اقرار کرتے تھے اور اسے میں اختلاف کا احتمال بہت کم تھا خاص طور پر ایسے حالات میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے امت کو اس طرف متوجہ کیا کہ ان کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلافت سنبھالنے کے زیادہ حق دار ہیں، پھر جب ابن ابو قحافہ رضی اللہ عنہما نے خلافت کے لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نامزد کیا تو انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ وہ ان سب لوگوں سے زیادہ طاقت ور، باقدرت اور افضل و بہتر ہیں جو اُن کے بعد یہ ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں، چنانچہ انہوں نے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک طویل مشاورت کے بعد انہیں خلیفہ نامزد کر دیا اور پھر کسی ایک شخص نے بھی ان کی اس رائے سے اختلاف نہ کیا اور اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اجماع ہو گیا۔[1] مگر اب نئے خلیفہ کا طریقہ انتخاب یہ قرار پایا کہ چھ بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ قائم کر دی گئی، وہ سب کے سب ایسے تھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ ان سے صدق دل سے راضی تھے، مزید برآں وہ سب کے سب منصب خلافت سنبھالنے کی صلاحیت سے بہرہ مند تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے طریقہ انتخاب، مدت انتخاب اور اس مجلس کے ممبران کی تعداد طے فرما دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو حکم دیا کہ نامزد کردہ ان چھ اشخاص کی مجلس میں جب تک وہ اپنے آپ میں سے کسی ایک شخص کو خلیفہ منتخب نہ کر لیں، اس میں کسی دوسرے شخص کو نہ جانے دیا جائے اور نہ ہی کوئی اہل حل و عقد کی اس مجلس میں ہونے والی گفتگو کو سن پائے۔[2] یوں امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کا ایسا نظام وضع کر دیا جو اُن سے پہلے کسی نے نہ کیا، اس میں تو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ شوریٰ کا اصول قرآن کریم اور قولی و فعلی سنت میں مقرر کردہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر عمل پیرا رہے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اصل سے ہٹ کر کوئی نئی بات ایجاد نہیں کی تھی، مگر خلیفہ کے انتخاب کے لیے طریقہ کی تعیین اور اس کے لیے چند معین افراد پر مشتمل مجلس شوریٰ کی تشکیل ایک ایسا عمل تھا جسے نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا اور نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے، سب سے پہلے یہ کام کرنے والے عمر رضی اللہ عنہ تھے اور انہوں نے جو کچھ بھی کیا بہت خوب کیا۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات کی مناسبت سے یہ طریقہ ہی بہترین طریقہ تھا۔[3] اس طرح امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے اہل شوریٰ پر مشتمل ایک اعلیٰ سیاسی ادارہ قائم کر دیا اور پھر انہیں اپنے میں سے ہی کسی ایک شخص کو خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار بھی تفویض کر دیا۔ اس جگہ ہم اس بات کی طرف اشارہ کرنا بہت ضروری خیال کرتے ہیں کہ اہل شوریٰ میں سے کسی ایک شخص نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ سے معارضہ نہیں کیا اور نہ ہی دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اس پر کسی نے کوئی اعتراض اٹھایا۔ اس وقت جو نصوص ہمارے سامنے ہیں وہ اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم پر ان کی زندگی میں ہی کوئی اعتراض کیا گیا اور نہ ہی ان کی حیات مستعار کے بعد۔ تمام لوگوں نے ان کی تدبیر کو پسند کیا اور ان میں اہل اسلام کی مصلحت
Flag Counter