Maktaba Wahhabi

503 - 503
دیکھی۔ ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا اعلیٰ سیاسی ادارہ قائم کیا جس کی ذمہ داری سربراہ مملکت یا خلیفہ کا انتخاب تھا۔ یہ نئی دستوری تنظیم جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تعجب انگیز ذہن رسا نے ایجاد کیا تھا وہ ان اساسی مبادیات سے متعارض نہیں ہے جن کا اسلام اقرار کرتا ہے اور خصوصاً وہ مبادیات جو شوریٰ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس بنا پر بعض ذہنوں میں پیدا ہونے والا یہ سوال ناقابل التفات ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حق کس نے دیا تھا؟ اور اس بارے میں ان کے پاس دلیل کیا تھی؟ ہمارے لیے یہی جاننا کافی ہے کہ مسلمانوں نے من حیث الجماعۃ اس تدبیر کی تصدیق کی اور اسے پسند کیا اور کسی نے بھی ان پر کوئی اعتراض نہ کیا، لہٰذا ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی درستی اور نفاذ پر امت کا اجماع ہو چکا تھا۔[1] ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد تھے اور اہل شوریٰ وہ اعلیٰ ترین سیاسی ادارہ ہے جسے عہد راشدہ میں نظام حکومت نے برقرار رکھا۔ عمر رضی اللہ عنہ کا تشکیل کردہ یہ شورائی ادارہ ایسی خوبیوں سے متصف تھا جن سے مسلمانوں کی جماعت میں کوئی دوسرا ادارہ متصف نہیں تھا۔ یہ خوبیاں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تھیں اور جن کے مبلغ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اہل ایمان کے نزدیک مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی عشرہ مبشرہ کے تقوی و طہارت اور امانت و دیانت تک نہیں پہنچ سکتا۔[2] یہ بات بڑی اہم اور قابل ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑی شدت کے ساتھ اس امر کے حریص تھے کہ امارت و خلافت کو ان کے قرابت داروں سے دُور رکھا جائے، حالانکہ ان میں اس کے اہل لوگ بھی موجود تھے، چنانچہ آپ نے سعید بن زید کو خلافت کے لیے نامزد لوگوں کی فہرست سے خارج کر دیا۔[3] انہوں نے صرف عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اہل شوریٰ کے پاس جانے کی اجازت دی تھی مگر اس شرط پر کہ انہیں خلیفہ منتخب نہیں کیا جائے گا۔[4] انتخابی عمل کی نگرانی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کر رہے تھے، وہ مدینہ منورہ میں کبار صحابہ اور اشراف صحابہ میں سے جس کو بھی ملتے اس سے اس بارے مشاورت کرتے ، اسی طرح لشکروں کے امراء اور مدینہ منورہ آنے والے لوگوں اور عورتوں تک سے مشورہ کرتے۔ آپ نے مشاورت کے اس عمل میں بچوں اور غلاموں کو بھی شامل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ تر مسلمانوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا جبکہ ان میں سے کچھ نے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کا نام بھی لیا۔ مشاورت کا عمل مکمل کرنے کے بعد ۲۳ ہجری ذوالحجہ کے آخری دن صبح کی نماز کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس نتیجہ کا اعلان کیا جس پر وہ پہنچے تھے۔ انہوں نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اما بعد: علی رضی اللہ عنہ ! میں نے لوگوں کا جائزہ لیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے انحراف کریں گے۔ آپ اس سے دل گرفتہ نہ ہوں، پھر انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور اللہ تعالیٰ، اس کے رسول کے احکام اور شیخین کی سنت
Flag Counter