Maktaba Wahhabi

72 - 503
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرماتے: یہ عرب کے کسریٰ ہیں۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ شام پر امارت کے دوران شاہی شان و شوکت اور ہر طرح کی تیاری کی حالت میں رہتے۔ اس کے لیے وہ یہ جواز پیش کرتے کہ میں دشمن کے سامنے مورچہ بند ہوں جس کے لیے حربی اور جہادی شان و شوکت اور شاہانہ اندازِ زیست کے مظاہرہ کی شدید ضرورت ہے۔[2] ان کا موقف تھا کہ شارع علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کی مذمت نہیں کی جو حق اور دین کے غلبہ کا فریضہ سر انجام دے اور عوام الناس کی مصالح کی نگہداشت کرے البتہ وہ بادشاہت یقینا قابل مذمت ہے جس کے پیش نظر باطل کی سرپرستی کرنا اور لوگوں کو ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کا اسیر بنانا ہو۔ اگر بادشاہ اللہ کے لیے مخلص رہ کر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کرنے کی ذمہ داری نبھائے تو اس میں سے کچھ بھی مذموم نہیں ہے۔[3] اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کا اس طرح ذکر فرمایا ہے: ﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لاَّ یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُo﴾ (ص: ۳۵) ’’انہوں نے دعا کی: اے میرے رب! میری بخشش فرما اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو بیشک تو بڑا دینے والا ہے۔‘‘ چونکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی شاہانہ شان و شوکت کے شرعی اغراض و مقاصد تھے، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ جب ایک دن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو انہوں نے بڑے خوبصورت الفاظ میں انہیں خراج تحسین پیش کیا۔[4] جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بہت زیادہ اعتماد حاصل تھا۔[5] پھر انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے اس بات کو ثابت کر دکھایا کہ انہیں نہ صرف یہ کہ سیاسی ضروریات کا گہرا ادراک حاصل ہے بلکہ وہ ماحول اور معاشرہ میں مثبت تبدیلیاں لانے کی صلاحیت سے بھی بدرجہ اتم بہرہ مند ہیں۔ الغرض عمر رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فاروق اعظم نے انہیں دولت اسلامیہ کے بڑے اہم صوبوں کی ولایت کے منصب جلیلہ پر فائز کیا بلکہ ان کی ولایت میں مسلسل اضافہ کرتے رہے اور انہیں کبھی ان کے منصب سے معزول نہ کیا حالانکہ انہوں نے اپنے عمال اور امراء کی کثیر تعداد کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیّدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی ذہانت و فطانت اور ان کی انتظامی
Flag Counter