Maktaba Wahhabi

85 - 503
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عیب گیری پر مشتمل ابوذر رضی اللہ عنہ کا واقعہ سراسر باطل ہے اور وہ کسی بھی صحیح روایت پر مبنی نہیں ہے۔اسی طرح یہ بات بھی بے اصل اور خودساختہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابن سبا کے درمیان کوئی رابطہ تھا۔[1] اس بارے میں اصل صورت حال یہ ہے کہ ابوذر نے اپنی مرضی سے ربذہ میں رہائش اختیار کی تھی اور اس کا سبب قرآنی آیت کے فہم میں ان کا وہ اجتہاد تھا جو کہ دیگر صحابہ کرام کی آراء سے مختلف تھا۔ وہ اپنی اس رائے پر مصر رہے اور اس پر کسی نے بھی ان سے موافقت نہ کی۔ انہوں نے ازخود خلیفۃ المسلمین سے ربذہ[2] میں رہائش پذیر ہونے کی درخواست کی جہاں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جایا کرتے تھے۔ انہیں اس علاقہ میں نہ تو کسی نے زبردستی جلاوطن کیا تھا اور نہ وہ وہاں جبری طور پر ہی مقیم رہے۔ خلیفۃ المسلمین نے انہیں اپنی رائے سے رجوع کرنے کا حکم بھی نہیں دیا تھا اس لیے کہ ان کا نکتہ نظر قابل قدر تھا مگر اس پر عمل کرنا مسلمانوں کے لیے واجب نہیں تھا۔[3] ابوذر کے واقعہ میں صحیح ترین روایت زید بن وہب سے مروی صحیح بخاری کی وہ روایت ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں ربذہ گیا تو وہاں میری ملاقات ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے ان سے دریافت کیا: آپ یہاں کیوں آ بسے؟ انہوں نے فرمایا: میں شام میں مقیم تھا کہ اس دوران میرا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس آیت میں اختلاف ہو گیا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّہْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo﴾ (التوبۃ: ۳۴) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک بہت سے عالم اور درویش یقینا لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے۔‘‘ معاویہ رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، جبکہ میرا موقف تھا کہ یہ آیت ان کے اور ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ جب ہمارے درمیان اس بارے میں اختلاف پیدا ہوا تو انہوں نے میری شکایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دی جس پر انہوں نے مجھے مدینہ منورہ آنے کے لیے کہا۔ میں ان کی خواہش کی تکمیل میں مدینہ منورہ گیا تو لوگ اس کثرت سے میرے پاس آنے لگے کہ گویا کہ انہوں نے اس سے قبل مجھے کبھی دیکھا ہی نہ ہو۔ میں نے اس بات کا ذکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: ’’اگر آپ چاہیں تو یہاں سے الگ ہو کر ہمارے قریب ہی کہیں جا بسیں۔‘‘ یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے میں اس جگہ رہائش پذیر ہو گیا۔ اگر وہ کسی حبشی کو بھی میرا امیر مقرر کر دیں تو میں اس کی بات سنوں گا اور اس کی اطاعت بھی کروں گا۔[4] یہ اثر چند اہم امور
Flag Counter