Maktaba Wahhabi

86 - 503
کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں: ا: زید بن وہب نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہ سوال اس لیے کیا تھا تاکہ وہ اس بات کی تحقیق کر سکیں جسے دشمنان عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر جگہ پھیلا دیا تھا: کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں جلاوطن کیا تھا یا انہوں نے یہ جگہ خود ہی پسند کی تھی؟ پھر سیاق کلام سے یہ معلوم ہوا کہ جب بہت سارے لوگ ان سے شام سے نکلنے کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس آنے لگے تو وہ یہاں سے باہر چلے گئے۔ نصِ حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں ربذہ جانے کا حکم دیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے لیے یہ جگہ خود منتخب کی تھی۔ اس کی تائید عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو انہوں نے اپنا سر ننگا کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم میرا خوارج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہم نے آپ کو اس لیے بلایا ہے تاکہ آپ مدینہ میں ہمارے قریب ہی رہیں۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، آپ مجھے ربذہ جانے کی اجازت دے دیں۔ تو انہوں نے اس کی اجازت دے دی۔[1] ب: ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ: ’’میں شام میں تھا۔‘‘ انہوں نے شام میں رہائش اختیار کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’جب مدینہ کی تعمیرات ’’سلع‘‘ تک پہنچ جائیں تو پھر شام کوچ کر جانا۔‘‘ جب میں نے یہ کچھ دیکھ لیا تو میں شام چلا آیا اور یہاں رہائش اختیار کر لی۔[2] ج: مال و زر کے بارے میں ابوذر کا موقف اس آیت کریمہ کے فہم میں ان کے اجتہاد پر مبنی تھا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّہْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَ جُنُوْبُہُمْ وَ ظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۳۴-۳۵) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک بہت سے عالم اور درویش یقینا لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے۔جس دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے خزانہ بنایا تھا، سو چکھو جو تم خزانہ بنایا کرتے تھے۔‘‘ احنف بن قیس سے ان کا یہ بیان مروی ہے کہ میں مسجد نبوی میں کچھ قریشی سرداروں کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ
Flag Counter