Maktaba Wahhabi

114 - 871
قراء ت تھوڑی آیات کی تلاوت سے بھی حاصل ہوتی ہے،مثلاً دس آیات پڑھنے سے یا بیس یا چالیس یا پچاس یا سو یادو سو یا پانچ سو،ان میں سے ہر ایک کی دلیل کے لیے ابن السنی کی کتاب میں احادیث موجود ہیں ] اس کے بعد تلاوتِ قرآن،بعض سورتوں اور بعض آیاتِ قرآنیہ کے فضائل احادیثِ ثابتہ کے ساتھ لکھے ہیں اور کہا ہے کہ ہر ایک سورت کی فضیلت میں جو احادیث مروج ہیں،وہ موضوع ہیں اور واضع نے خود اس کا اقرار کیا تھا۔ زمخشری،بیضاوی اور ثعلبی وغیرہ مفسرین،جن کو علمِ حدیث میں دستگاہِ کامل نہ تھی،وہ اس بلا میں مبتلا ہو گئے۔رہی یہ بات کہ فضائلِ اعمال والی احادیث میں تساہل روا ہے،ٹھیک نہیں،کیوں کہ احکامِ شرعیہ متساوی الاقدام ہیں۔واجب،محرم،مسنون،مکروہ اور مندوب کے درمیان کچھ فرق نہیں ہے۔کسی بھی شے کا اثبات حجتِ صحیحہ سے چاہیے،ورنہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر بہتان ٹھہرے گا۔ پھر کہا ہے کہ افضل دعواتِ فاضلہ وہ دعائیں ہیں،جو قرآن کریم میں آئی ہیں۔یہ دعائیں’’حزبِ اعظم‘‘ میں یک جا جمع ہیں۔[1] ہر حزب کے پڑھنے سے پہلے ان دعاؤں کا پڑھنا اچھا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان قرآنی دعاؤں کا مرتبہ دوسری دعاؤں پر ایسا ہی ہے،جیسا کہ قرآن کا رتبہ تمام کلاموں پر ہے۔اس کے بعد وہ دعائیں ہیں،جو سنتِ مطہرہ سے ثابت ہیں۔[2] ان کا خاطر خواہ حصہ رسالہ’’زیادۃ الإیمان‘‘[3] میں مرقوم ہے۔یہ دعائیں قرآنی ترتیب کے ساتھ’’نزل الأبرار‘‘ میں بھی لکھی ہیں۔[4]ہر قرآنی دعا کے نیچے صاحبِ دعا کا نام لکھ دیا گیا ہے کہ یہ دعا فلاں پیغمبر کی تھی اور وہ فلاں پیغمبر کی۔وہلم جرا۔یہ کل اکسٹھ (۶۱) دعائیں ہیں جو قرآن پاک میں آئی ہیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے’’وابل صیب‘‘ میں فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی قراء ت ذکر سے افضل ہے اور ذکر دعا سے افضل ہے،لیکن کبھی مفضول میں ایسی چیز شامل ہو جاتی ہے،جس سے وہ فاضل ہو جاتا ہے،جیسے رکوع و سجود کی تسبیح کہ اس جگہ یہ قراء تِ قرآن سے افضل ہے۔اسی طرح کبھی دعا میں
Flag Counter