Maktaba Wahhabi

741 - 871
آدمی کی عزت محفوظ رکھنی ہوتی،یا سرداری حاصل کرنا مقصود ہوتا۔اس چھپانے کا مقصد یہ ہوتا کہ عوام کا اعتقاد اٹھ نہ جائے اور آیات کے مطابق عمل نہ کرنے پر وہ ملامت کا نشانہ نہ بنیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ تورات میں زانی کو سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا تھا،مگر یہودی علما نے اتفاق رائے سے اس سزا کو موقوف کر کے اس کی جگہ درے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا تجویز کر دی تھی،اس لیے رسوائی کے خوف سے اصل حکم کو چھپا رکھا اور خود ساختہ حکم کو اس کی جگہ دے دی۔ دوسری مثال یہ ہے کہ یہودیوں نے تورات کی ان آیات کی فاسد تاویل کی،جن میں ہاجر اور اسماعیلi کو بشارت دی گئی ہے کہ ایک نبی ان کی اولاد میں مبعوث ہو گا۔پھر ایک ایسی ملت کا ذکر کیا،جس کا ظہور و اشاعت سرزمین حجاز میں ہو گی،اس کی لبیک سے عرفات کی پہاڑیاں گونج اٹھیں گی اور ہر سمت سے لوگ اس مقام کی زیارت کو آئیں گے۔یہ باتیں اب تک تورات میں موجود ہیں،مگر یہودی ان کی تاویلِ فاسد یوں کرتے ہیں کہ یہ تو صرف اس ملت کے آنے کی خبر ہے،اسے اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔وہ کہا کرتے تھے:’’مَلْحَمَۃٌ کُتِبَتْ عَلَیْنَا‘‘ [ہمارے اوپر جنگ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف) لکھی گئی ہے] چونکہ اس کمزور تاویل کو کوئی سنتا اور نہ کوئی اسے صحیح مانتا،اس لیے وہ آپس میں ایک دوسرے کو اسے چھپانے کی وصیت کرتے اور خاص و عام پر اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔قرآن مجید نے ان کا یہ راز فاش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَتُحَدِّ ثُوْنَھُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ لِیُحَآجُّوْکُمْ بِہٖ عِنْدَ رَبِّکُمْ﴾ [البقرۃ: ۷۶] [کیا تم انھیں وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کھولی ہیں،تاکہ وہ ان کے ساتھ تمھارے رب کے پاس جھگڑا کریں،تو کیا تم نہیں سمجھتے؟] افسوس! یہ یہودی کتنے جاہل تھے! اللہ تعالیٰ نے ہاجر اور اسماعیلi پر احسانِ عظیم فرمایا اور ان کی ملت کو اتنا بڑا شرف بخشا تو کیا اس سے ان کے دین کو اختیار کرنے کی تحریک و ترغیب سمجھ میں نہیں آتی؟ سبحانک ھٰذا بہتان عظیم۔ افترا: یہودی علما اور مشائخ میں حد درجے کا تشدد تھا۔وہ شارع کی تشریح کے بغیر ہی کسی مصلحت کی بنا پر بعض احکام گھڑ لیتے۔ان بے ہودہ احکام کو پہلے رواج دیتے،پھر انھیں اصل کتاب میں ملا دیتے
Flag Counter