Maktaba Wahhabi

348 - 871
اس کے بعد فرمایا: ((فَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَالِکَ شَیْئاً فَسَتَرَہُ اللّٰہُ فَھُوَ إِلَی اللّٰہِ،إِنْ شَائَ عَفَا عَنْہُ،وَ إِنْ شَائَ عَذَّبَہُ)) [جس شخص نے ان میں سے کوئی کام کیا،پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے،چاہے معاف فرمائے اور چاہے سزا دے] نیز صحیح مسلم میں سو شخص کے قاتل کے بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی وہ استدلال کرتے ہیں۔[1] ایک جماعت نے،جن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں،کہا ہے کہ قاتل عمد اس کی مشیت کے تحت ہے،اس نے توبہ کی ہو یا نہ کی ہو۔شرح’’منتقیٰ‘‘ میں میں نے ہر ایک کے استدلال کو بیان کردیا ہے۔درست یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا،بلکہ ہر قاصد کے لیے کھلاہوا ہے۔جب شرک سب سے بڑا گناہ اور سب سے سخت ہے اور اﷲ سے توبہ کرنے کی وجہ سے مٹ جاتا ہے اور اس کے مرتکب کے لیے اس سے نکلنے اور توبہ کے دروازے میں داخل ہونے کی گنجایش ہے تو اس سے چھوٹی معصیت جو قتل عمد ہے،اس کی کیا حیثیت ہے؟،لیکن قاتلِ عمد کی توبہ میں قتل کا اعتراف اور خود کو قصاص کے لیے حوالے کرنا،اگر قصاص واجب ہے اور دیت دینا،اگر قصاص واجب نہ ہو،ضروری ہے۔مال دار قاتل اس کے کل یا کچھ کو حوالے کرے گا،لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنے کے عزم سے خالی توبہ،جس میں اعتراف اور تسلیمِ نفس نہ ہو،تو میں اس کی پذیرائی کا یقین نہیں کرتاہوں۔واللّٰه أرحم الراحمین،ھو الذي یحکم بین عبادہ فیما کانوا فیہ یختلفون۔[2] چوبیسویں آیت: ﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِیْرًا﴾ [النساء: ۱۴۵] [بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا]
Flag Counter