Maktaba Wahhabi

396 - 871
میں پہلے ہو اور یہی میرے نزدیک زیادہ ظاہر ہے۔[1] انتھیٰ۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں اہلِ علم نے کئی اقوال پر اختلاف کیا ہے: 1۔یہ آیت محکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی بیویوں پر شادی کرنا،اس فعل کی مکافات کی وجہ سے کہ انھوں نے اﷲ اور رسول اور دارِ آخرت کو اختیار کیا،جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دیا،حرام ہے۔یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد،ضحاک،قتادہ،حسن،ابن سیرین،ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام،ابن زید اور ابن جریر رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔ 2۔ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ جب اﷲ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر دوسرے کسی خاوند سے شادی کرنا حرام کردیا تو اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ان بیویوں کے سوا کسی اور سے شادی کرنا حرام کر دیا۔ 3۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ،عکرمہ اور ابو رزین رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تیرے لیے مذکورہ اصناف کے بعد،جن کانام لیا گیا ہے،عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں ہے۔ 4۔کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہودیات اور نصرانیات حلال نہیں ہیں،کیونکہ امہات المومنین کے ساتھ انھیں متصف کرنا صحیح نہیں ہے۔اس قول میں بُعد ہے،کیونکہ اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی’’ولا یحل لک النساء من بعد المسلمات‘‘ حالانکہ’’مسلمات‘‘ کا ذکر اس سے پہلے نہیں ہوا ہے۔ 4۔نیز کہتے ہیں کہ یہ آیت سنت اور اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد: ﴿تُرْجِیْ مَنْ تَشَآئُ مِنْھُنَّ وَ تُؤیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآئُ﴾ [الأحزاب: ۵۱] [ان میں سے جسے تو چاہے موخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے] سے منسوخ ہے۔سیدہ عائشہ،سیدہ ام سلمہ،علی بن ابی طالب اور علی بن حسین رحمہ اللہ علیہم وغیر ہ اسی کے قائل ہیں اور یہی راجح ہے۔راجح قول پر تبدیل کرنا بھی اسی میں سے ہے،جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منسوخ کردیا ہے۔[2] انتھیٰ کلامہ۔
Flag Counter