Maktaba Wahhabi

511 - 871
پانچویں : ناسخ و منسوخ کاایسے طریقے پر عارف ہوکہ کوئی چیز اس سے مخفی نہ رہے۔ میں نے ان شروط کی تفصیل’’مسک الختام شرح بلوغ المرام‘‘ وغیرہ میں لکھی ہے،اسے دیکھیے۔ دلیلِ عقلی کے ساتھ علم کی شرط لگانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ایک جماعت نے شرط لگائی ہے اور ایک جماعت نے نہیں لگائی اور یہی درست ہے،کیونکہ اجتہاد کا دوران ادلہ شرعیہ پر ہے،ادلہ عقلیہ پر نہیں۔علم اصولِ دین اورعلمِ فروع کی شرط عائد کرنے میں اختلاف ہے اور درست اس کا عدمِ اشتراط ہے،کیونکہ فروع کی تولید خود اسی سے ہے،اس لیے اجتہاد میں اس کی کیا ضرورت ہے؟ بعض نے علمِ جرح و تعدیل کو علومِ اجتہاد میں داخل کیا ہے اور یہ درست ہے،لیکن یہ سنتِ مطہرہ کے علم میں داخل ہے،کیونکہ علمِ سنت اس کے بغیر ناتمام ہے۔کہتے ہیں کہ اس میں شروط وارکان سمیت قیاس کی معرفت بھی داخل ہے،کیونکہ قیاس اجتہاد کا مناط اور اصل رائے ہے،جس سے فقہ کا انشعاب ہے،لیکن یہ بھی علمِ اصول فقہ میں داخل ہے،کیونکہ یہ اس کے ابواب میں سے ایک باب ہے۔ ایک جماعت نے کہا ہے کہ کوئی زمانہ’’مجتہد قائم بحجج اللّٰہ‘‘ سے جو’’ما أنزل اللّٰہ‘‘ کو سب کے لیے بیان کرے خالی نہیں ہوسکتا۔حنابلہ اسی کے قائل ہیں اور یہی درست ہے۔اس کی دلیل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے: ((لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ أُمَّتِيْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ حَتّٰی یَاتِيَ أَمْرُ اللّٰہِ)) [1] [میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا،یہاں تک کہ اللہ کا امر (قیامت) آ جائے] زرکشی رحمہ اللہ نے اکثریت سے زمانے کے مجتہد سے خالی ہونے کی حکایت کی ہے اور شافعیہ اسی کے قائل ہیں،جب کہ درست بات پہلی ہے۔یہ کیوں کر ممکن ہے،کیونکہ متقدمین پر اجتہاد سے زیادہ متاخرین پر اجتہاد آسان وسہل ہے اور اس میں جو صحیح فہم اور سیدھی عقل رکھتا ہے،اختلاف نہیں کرتا ہے۔رہے منکرین جو تقلید پر ڈٹے ہوئے ہیں اور کتاب وسنت کے سوا علم سے شغل رکھتے ہیں،وہ اسے دشوار قرار دیتے ہیں۔جو شخص بھی اﷲ کے فضل کو اس کی بعض مخلوق میں محدود کرتا ہے اور متقدم العصر پر شریعت مطہرہ کے فہم کو محصور کرتا ہے،وہ اﷲ اور شریعت پر جراَت مند ہے۔
Flag Counter