Maktaba Wahhabi

513 - 871
مذہب وجوبِ اجتہاد اور ترکِ تقلید ہے۔امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’أنا بشر أخطیٔ وأصیب،فانظروا في رأیي فما وافق الکتاب والسنۃ فخذوا بہ،وما لم یوافقہ فاترکوہ‘‘[1] [میں ایک بشر ہوں،خطا بھی کرتا ہوں اور درست بات بھی کہتا ہوں۔میری رائے پر غور کرو،جو کتاب و سنت کے مطابق ہو،اسے لے لو اور جو اس کی موافقت میں نہ ہو،اسے چھوڑ دو] اسی کے مثل ابو حنیفہ،شافعی اور احمد رحمہ اللہ علیہم بھی فرماتے ہیں۔تقلید سے ممانعت کی تصریح میں کتاب’’قول مفید‘‘میں ائمہ اربعہ کے اپنے الفاظ میں نصوص مذکور ہیں۔[2] یہیں سے یہ علم ہوا کہ تقلید سے روکنے پر اگر اجماع نہ ہو،پھر بھی جمہور کا مذہب ہے اور اس کا موید اموات کی تقلیدکے عدمِ جواز پر اجماع ہے۔نیزاس پر اجماع ہے کہ مجتہد کا عمل عدمِ دلیل کے وقت اپنے لیے رخصت ہے اور غیر کے لیے اس پے عمل جائز نہیں ہے اور یہ دونوں اجماع تقلید کی بیخ کنی کرتے ہیں۔تعجب ان پر ہے جو اپنے جہل پر قناعت نہ کرکے اپنے اوپر اور دوسروں پر تقلید کو واجب کرتے ہیں،جبکہ تقلید باتفاق اہلِ علم جہل ہے،علم نہیں !! تیسرا مذہب تفصیل ہے،یعنی عامی پر واجب اور مجتہد پر حرام ہے۔اکثر ائمہ کے پیرو اس کے قائل ہیں۔یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اختلاف میں اقوالِ مجتہدین کا اعتبار ہے اور یہ مقلدین کے پیرو ہیں نہ کہ مجتہدین،لہٰذا ان کا اختلا ف معتبر نہیں ہوگا۔خصوصیت سے جب ائمہ اربعہ نے انھیں اپنی تقلید اور دوسروں کی تقلید سے روک دیا ہے۔بعض گمراہوں نے اس ممانعت کو مجتہدین پر محمول کیا ہے نہ کہ مقلدین پر۔ ’’إرشاد الفحول‘‘ میں فرمایا ہے: ’’لم یأت من جوز التقلید،فضلا عمن أوجبہ،بحجۃ ینبغي الاشتغال بجوابھا،ولم نؤمر برد شرائع اللّٰه سبحانہ إلٰی آراء الرجال‘‘[3] انتھیٰ۔ [جس نے تقلید کو جائز قرار دیا ہے،کجا کہ جس نے اسے واجب قرادیا ہے،ایسی کوئی دلیل
Flag Counter