Maktaba Wahhabi

532 - 871
اس آیت میں ﴿قیم﴾ کا معنی یہ ہے کہ قرآن مجید سے ٹیڑھے پن کی مکمل نفی کی ہے۔یہ قرآن مجید وہ کتاب ہے،جو اِحکام و اِتقان میں تعارض،خطا،تناقض اور اِیہام کی نفی میں انتہائی درجے کو پہنچی ہوئی ہے۔ٹیڑھے پن کی نفی اورقیومیت کے اثبات کو جمع کرنا،ایک ایسی چیز ہے جو کسی بھی دوسری کتاب سے بے پروا کرتی ہے اور یہ تاکید و مبالغے کے ساتھ متصف ہے،تو اس کے علاوہ کوئی کتاب اس کے قائم مقام اور کوئی کتاب،کتاب اللہ کے برابر کیسے ہو سکتی ہے؟ فرمانِ الہٰی ہے: ﴿کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَ ذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الأعراف: ۲] [ایک کتاب ہے جو تیری طرف نازل کی گئی ہے تو تیرے سینے میں اس سے کوئی تنگی نہ ہو،تاکہ تو اس کے ساتھ ڈرائے اور ایمان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہے] یہ آیت کریمہ بھی اسی معنی میں ہے: ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [النسآء: ۶۵] [پس نہیں ! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے،یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے،پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کر لیں،پوری طرح تسلیم کرنا] یہ آیتِ کریمہ اس لحاظ سے پہلی آیت کے معنی میں ہے کہ قرآن مجید وہ موکد چیز ہے،جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ہے اور یہ ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا ہے۔پس جو کوئی اس قرآن میں سے کسی چیز پر شک کرے گا،وہ اس کے علاوہ چیزوں میں زیادہ شک و شبہے میں مبتلا ہو گا۔نیز قرآن مجید کے ساتھ ایسی نفیس صفات مختص ہیں،جو کسی اور کتاب کے اندر نہیں پائی جا سکتیں،بلکہ وہ اس کی ان صفات میں شریک بھی نہیں ہیں،جیسے یہ کلامِ خدا ہے،جو سب کو عاجز کر دینے والا ہے۔کلامِ خدا اور کلامِ مخلوق میں وہی فرق ہے،جو مخلوق اور خالق کے درمیان فرق ہے۔بلاشبہہ وہ ایک بڑی شان والا قرآن ہے،جو اس تختی میں لکھا ہوا ہے،جس کی حفاظت کی گئی ہے۔قرآن مجید
Flag Counter