Maktaba Wahhabi

587 - 871
ساتھ سببِ نزول کے اختلاف کے حل کو جان لے گا۔ اس سلسلے میں یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآنی آیات کی ترتیب میں جس قصے کی طرف اشارہ موجود ہو،اس کی تفصیل بیان کر دی جائے۔مفسرین ایسے مواقع پر اسرائیلی واقعات یا تاریخ و سوانح سے قصہ اخذ کرتے ہیں اور اس کے تمام پہلو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔یہاں ایک اور وضاحت کی بھی ضرورت ہے کہ اگر کسی آیت میں بہ ظاہر کسی لفظ سے اشارہ پایا جاتا ہو،جس پر اہلِ زبان رک جائے اور اس کی تلاش کرنے لگے تو مفسرین کا فرض ہے کہ اس کی توضیح کر دیں اور جس آیت میں ایسی کوئی بات نہ ہو،وہاں ایسی کاوش کرنا لا یعنی تکلف ہے۔مثلاً بنی اسرائیل کے قصہ بقرہ کے متعلق کہ وہ نر تھی یا مادہ،یا اصحابِ کہف کے کتے کے بارے میں کہ وہ چتکبرا تھا یا سرخ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسی باتوں کو برا سمجھتے تھے اور اسے تضییعِ اوقات میں شمار کرتے تھے۔ یہاں پر دو اور نکتے کی باتیں یاد رکھنے کے لائق ہیں۔ایک یہ کہ سنے ہوئے قصے کو بغیر کسی عقلی تصرف کے بیان کر دیا جائے۔قدیم مفسرین کی ایک جماعت نے ایسا نہیں کیا ہے۔وہ کسی آیت میں تعریض ہی کے پیچھے نہیں پڑگئے۔انھوں نے کوئی مناسب موقع فرض کر لیا اور بہ صورت احتمال اس پر تقریر کی،جس کی بنا پر بعد میں آنے والے مفسرین کو اشتباہ ہو گیا۔ایسا اکثر ممکن ہے،کیوں کہ جو تقریر بہ صورتِ احتمال ہوتی ہے،آگے جا کر وہ پکی تقریر کے مشابہ ہو جاتی ہے،کیونکہ اگلے زمانے میں تقریر کے اسباب آج کل کی طرح خالص نہیں تھے۔ یہ مسئلہ اجتہادی ہے،اس میں عقل لڑانے کی گنجایش ہے،اس میں عقل کا دائرہ اور بحث کا میدان بہت وسیع ہے۔جو شخص اس نکتے کو یاد رکھے گا،وہ اکثر مقامات پر مفسرین کے اختلاف کا فیصلہ کر سکے گا۔نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بہت سے مناظرات کے متعلق اس پر حقیقت واضح ہو جائے گی کہ وہ ان کا قول اور مسلک نہیں ہے۔وہ تو صرف ایک علمی بحث ہے،جیسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول جو انھوں نے آیت: ﴿وَ امْسَحُوْا بِرُؤسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ [اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھو لو) ] کے بارے میں فرمایا تھا: ’’لَا أَجِدُ فِيْ کِتَابِ اللّٰہِ إِلَّا الْمَسْحَ،لٰکِنَّھُمْ أَبَوا إِلَّا الْغُسْلَ‘‘[1]
Flag Counter