Maktaba Wahhabi

70 - 871
قرآن مجید پیش کیا۔[1] (رواہ الشیخان وأبوداؤد وابن ماجہ) یہیں سے عرض کا ایک اور طریقہ اخذ کیا گیا ہے کہ تلامذہ شیوخ پر عرض کریں اور اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ شاگرد استاد سے سنے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مدارست کے طور پر اس کی صورت یہ ہے کہ کسی قدر تو اپنے غیر پر پڑھے،پھر وہ اسی قدر ما بعد سے تجھ پر پڑھے۔اس طرح (حصولِ علم کے) دونوں طریقے حاصل ہو جاتے ہیں۔[2] امام طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سالِ وفات میں معروض علیہ (جس پر وہ قرآن پیش کیا گیا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اس عرضہ اخیرہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی حاضر تھے۔اسی لیے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دیا تھا،کیوں کہ وہ عرضہ اخیرہ کا مکمل علم رکھتے تھے۔[3] غرضکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جبریل علیہ السلام پر عرض کرتے تھے اور سالِ وفات میں دو بار عرض کیا تو ہم جیسے لوگوں پر لازم ہے کہ ہمیشہ عرض و تلاوت کیا کریں۔ہم کو کب کتاب اللہ سے استغنا پہنچتا ہے،جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ نہ تھے؟ صحتِ تلاوت ایک علاحدہ شے ہے۔عالم کو ہرگز یہ زیبا نہیں ہے کہ قاری پر عرضِ قرآن میں عار سمجھے،بلکہ لازمی ہے کہ صحیح پڑھنے والے پر عرض کر کے تلاوت کا طریق سیکھ لے۔
Flag Counter