Maktaba Wahhabi

97 - 871
[اللہ تعالیٰ نے اتنی توجہ سے کسی چیز کو نہیں سنا،جتنا اس نے اپنے نبی کو خوش الحانی کے ساتھ بآواز بلند قرآن پڑھتے ہوئے سنا] 5۔ان سے مرفوعاً مروی تیسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ)) [1] (رواہ البخاري) [جو شخص خوش الحانی سے قرآن نہیں پڑھتا،وہ ہم میں سے نہیں ہے] امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر علما نے کہا ہے کہ اس جگہ تغنی سے مراد تحسینِ صوت اور ترقیق و تحزین ہے۔ابن عیینہ رحمہ اللہ اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس سے مراد لوگوں یا دوسرے کلام سے استغنا ہے،لیکن اول موقف زیادہ ظاہر ہے۔ازہری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مراد جہر ہے۔انتھیٰ۔ رہا بہ رعایتِ موسیقی تکلف کرنا تو وہ حرام ہے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس سے نہی آئی ہے۔[2] (رواہ البیہقي ورزین) ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے (ان کے ایک شاگرد نے) کہا تھا: ’’أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَکُنْ حَسَنَ الصَّوْتِ؟ قَالَ: یُحْسِنُہُ مَا اسْتَطَاعَ‘‘[3] (رواہ أبو داؤد) [اس کے متعلق کیا خیال ہے کہ اگر اس (قاری قرآن) کی آواز اچھی نہ ہو تو؟ انھوں نے جواب دیا: وہ حتی الوسع خوش الحانی سے پڑھے] 6۔سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((زَیِّنُوْا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ)) [4] (رواہ أحمد وأبو داؤد وابن ماجہ والدارمي) [اپنی آوازوں کے ذریعے سے قرآن مجید کو مزین کرو] یہ وہ دلائل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قراء تِ قرآن میں تحسینِ صوت مستحب ہے۔وگرنہ:
Flag Counter